لندن کے وکٹوریا اینڈ البرٹ عجائب گھر کے انسٹاگرام پیج پر ایران کی ایک قاجار خاتون کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ تصویر میں نوجوان خاتون کی بھنویں آپس میں جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے ایران کے قدیم قاجار (شاہی) دور کا لباس پہن رکھا ہے جو دیکھنے والے کو ابتدا میں قدیم تصویروں کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھیں تو خاتون کے ہاتھوں میں پیپسی کا کین دیکھا جا سکتا ہے جو جدت اور روایت کا امتزاج نظر آتا ہے۔
تصویر کے کیپشن میں شادی قدیریان کا نام بطور فوٹوگرافر دکھائی دیتا ہے۔ ان کی اس تصویر کا انتخاب ’قاجار خواتین‘ کے عنوان والے تصویری مجموعے سے کیا گیا ہے۔
شادی قدیریان جدید دور میں پیشہ ور فوٹوگرافر ہیں جن کے کام شمار’فنون لطیفہ‘کی کیٹیگری میں کیا جاتا ہے۔ اپنی سوانح عمری کے مطابق انہوں نے یونیورسٹی آف تہران سے دو سال میں فوٹوگرافی میں گریجویشن کی۔ وہ ایران کے ایک ممتاز فوٹوگرافر بہمن جلالی کی شاگرد ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’قاجار خواتین‘ کی تصاویر کی نمائش تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ شادی قدیریان کا پہلا تصویری مجموعہ ہے جسے نمائش کے آغاز کے بعد سے عالمی سطح پر زیادہ توجہ ملی ہے۔ اتنی توجہ کہ سائنز اور علامتوں کے اطالوی ماہر امبرٹوایکو نے ان کے مجموعے کی تعریف کی ہے۔
شادی قدیریان کا کام دیکھنے کے لیے میں وکٹوریا البرٹو عجائب گھر گئی۔ مجھے دوسری منزل پر جانے کی ہدایت کی گئی جہاں عجائب گھر کی دستاویزات محفوظ کی گئی ہیں۔ میں ابھی تک تذبذب کا شکار تھی کہ ایک ایرانی فن کار کے کام کے بارے میں مزید معلومات کے لیے کیسے کہا جائے۔ میں نے محسوس کیا کہ دانشمندی ہو گی کہ کسی ذمہ دار افسر کو اپنا نام بتایا جائے۔ میں فوٹوگرافر کے طور پر شہرت کی مالک ہوں۔ میں نے فوری طور پر درخواست فارم بھرا تاکہ آرکائیو میں موجود تصاویر دیکھ سکوں۔
میں شادی قدیریان کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرا تعارف عجائب گھر کی سینیئر آرٹ ڈائریکٹر مارتھا وائیس سے کروایا گیا۔ وہ قدیریان اور ان کے فوٹو گرافی کے ہنر کے بارے میں جانتی تھیں۔ چند لمحے بعد انہوں نے مجھے تصاویر پر مبنی ایک کتاب دکھائی جس کا عنوان تھا: ’مشرق وسطیٰ سے ایک روشنی۔‘
انہوں نے گرم جوشی اور شفقت کے ساتھ بتایا کہ وہ ایرانی لوگوں اور فوٹوگرافی کے ایرانی فن سے واقف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے دیگر فوٹوگرافر اپنی تصاویر نمائش میں رکھ چکے ہیں۔
اب ’مشرق وسطیٰ سے ایک روشنی‘کے عنوان سے کتاب شائع ہوئی ہے، وہ اسی نمائش میں رکھی گئی تصاویر پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مارتھا وائیس نے چھپوائی ہے۔ شادی قدیریان کے ’قاجار خواتین‘ کے تصویری مجموعے کے علاوہ دوسرے ایرانی فوٹوگرافروں جیسا کہ عباس کوثری، مہرانے اتشی، بہمن جلالی، سونگ حمامی اور عامر علی قاسمی بھی نمائش کا حصہ بنے۔
اسی اثنا میں انہوں نے ہال کے وسط میں رکھے ڈیسک پر موجود ایک بڑے باکس پر لکھی تحریر پڑھی۔ یہ باکس آرکائیو سے نکالا گیا تھا۔ جب باکس کو کھولا گیا تو اس میں ’قاجار خواتین‘کی تصاویر کی ایک سیریز موجود تھی۔ سفید گتے کے فریم میں لگی ہر تصویر میں شادی قدیریان کے ہنر نمایاں تھا۔
میں نے ایک ایک کرکے تصویریں دیکھیں۔ مارتھا وائیس کے قریب کچھ فن کار اور ڈائریکٹرز تصاویر کے اردگرد موجود تھے۔ انہوں نے فوٹو گرامی کے ہنر پر بات کرنی شروع کر دی۔
یہ ہنر ایرانی خواتین کی روایتی وضع قطع کو قاجار خواتین کی ماڈل قمیصوں اور پتلونوں یا سیاہ رنگ کی لمبی چادر کے ساتھ سفید دوپٹے اور پس منظر میں موجود ان تصاویر کے ساتھ ملانے کا ہے جن میں پرانے ماحول کی عکاسی کی گئی ہے۔ لیکن عجائب گھر میں موجود فوٹوگرامی کے تمام چھ نمونوں میں جدید اشیا، دیکھنے والے کو ماضی سے حال میں لے آتی ہیں۔ ان میں سے ایک وہی قاجار وضع قطع والی خاتون کی تصویر ہے جنہوں نے دھوپ کے چشمے لگا رکھے ہیں۔
ایک اور تصویر میں دو خواتین دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے کالی چادر اور سکارف اوڑھ رکھا ہے۔ ان میں سے صرف ایک نے سکارف اوپر کیا ہوا ہے اور دونوں ایک سائیکل کے پاس کھڑی ہیں۔ ایک دوسری تصویر میں ایک خاتون کی دو مرتبہ ڈی کوڈ کی گئی آڈیو ریکارڈنگ دکھائی دیتی ہے۔ یہ خاتون ایک کیمرے کی جانب دیکھ رہی ہیں اور ان کے ہونٹوں پر ایک بڑا سیاہ رنگ کا ٹیٹو بنا ہوا ہے۔ خاتون نے سفید رنگ کا سکرٹ اور دوپٹہ زیب تن کر رکھا ہے۔
یہ تمام تصاویر بلیک اینڈ وائٹ ہیں۔ یہ ایرانی ثقافت کا رنگ لیے ان روایات کے لیے بھی چیلنج ہیں جس ثقافت میں بیک وقت جدت کی جھلک موجود ہے۔
ہم مشرق وسطیٰ کے لوگوں کے لیے اس قسم کی سوچ بڑی مانوس ہے۔ بہت سی صورتوں میں ایک خاتون کی شخصیت میں ان دونوں خصوصیات کا پایا جانا معاشرے کی جانب سے تعریف کا سبب ہوتا ہے۔ ایک ایسی خاتون جو اپنے راستے سے ہٹ کر روایت کی جانب گئی ہو لیکن وہ جدید دور کے مسائل سے بھی واقف ہو۔
جدید دور میں داخلے نے انہیں ماضی سے بے فکر نہیں کیا۔ مثال کے طور پر مذہبی معاملات۔ ان تمام تصاویر میں خواتین مکمل طور پر نقاب میں دکھائی دیتی ہیں، حتیٰ کہ ان کے چہرے کے میک اپ کو ایران کی پرانی دنیا میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ بڑے نشانات کے ساتھ کمان کی شکل کی بھنویں اور وہ آنکھیں جن میں مشرقی عورت کی شرم نظر آتی ہے۔
چند منٹ تک تصویری مجموعہ دیکھنے کے بعد میں اسے سراہنے والوں کی آواز سن سکتی تھی جو شادی قدیریان کے کام میں موجود درست زاویوں اور تصاویر میں اشیا کی درست ترتیب کے ان کے جنون کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔’قاجار خواتین‘کے نام کی اس سیریز میں روشنی، پردوں اور زنانہ لباس کا درست انتخاب بہت پرکشش ہے۔ اسی وجہ سے اس مجموعے میں موجود تصویریں دیکھنے اور انہیں دیکھنے والے غیر پیشہ ور افراد دنوں کے لیے منفرد ہیں۔
بلاشبہ شادی قدیریان گذشتہ دو دہائیوں سے ایران کی کامیاب ترین خاتون آرٹسٹ ہیں جن کی کھینچی گئی تصاویر کی بہت سے یورپی و امریکی ممالک سمیت کینیڈا، میکسیکو، روس اور متعدد ایشیائی ممالک میں نمائش ہو چکی ہے۔ ان دوسرے مجموعوں میں’نتھنگ، نتھنگ‘ اور’وائٹ سکوائر‘ شامل ہیں جن میں چار رنگوں والی تصاویر موجود ہیں۔ انہوں نے برطانوی گلوکار جان لینن کے گانوں سے متاثر ہو کر یہ تصاویر کھینچیں جن کی تہران کی سلک روڈ گیلری میں نمائش کی گئی۔
بیرون ملک آرٹ کے مداح انہیں جانتے ہیں۔ لندن کے مشہور وکٹوریا اینڈ البرٹ عجائب گھر جیسے مقامات پر ممتاز آرٹسٹ کی حیثیت سے ان کا نام دیکھنے سے تمام حدود کے باوجود ان کی بے انتہا محنت ظاہر ہوتی ہے۔
وہ ایک نرم مزاج آرٹسٹ ہیں جو فن کے نمونے تخلیق کرنے اور دیکھنے والوں کو دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کے دل کی تصاویر سے روشناس کرانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ ایک ایسی آواز ہیں جو دیکھنے والوں کے دل کو تصویروں کے ذریعے نرم کرتی ہیں۔ وہ ذہنوں کو اپنی جانب مبذول کرتی ہیں اور ان کی تصاویر چیخ چیخ کر فن کا اظہار کرتی ہیں۔