پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کرونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا، دفعہ 144 لگائی گئی مگر اس سب کے باوجود لوگ گھروں پر بیٹھنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے اور اب بھی رش کا وہی عالم ہے جو عام حالات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ملک میں کووڈ۔19 کے مریضوں کی تعداد 11 ہزار کا ہندسہ عبور کر چکی ہے جبکہ 237 سے افراد اس وائرس کے سبب ہلاک ہوئے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے حوالے سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق تمام گروسری، جنرل سٹور، کریانہ سٹور، بیکریاں، آٹا چکیاں، دودھ کی دکانیں، گوشت اور سبزیوں کی دکانیں، ہر قسم کی منڈیاں جس میں غلہ، پھل، سبزی اور جانوروں کی منڈیاں، تندور، آٹو ورکشاپس، ٹائر پنکچر، سپیئرپارٹس، ہوٹل اور پٹرول پمپس وغیرہ کھلے رہیں گے۔
مگر ان کو کھولنے کے کچھ اصول وضع کیے گئے، جن کے تحت یہ سب دکانیں صبح نو سے شام پانچ بجے تک کھلی رہ سکیں گی اور ضرورت کا سامان یا ادویات خریدنے کے لیے گھر کے دو افراد جا سکتے ہیں۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور صرف گروسری اور فارمیسی کھول سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سامان نہیں بیچا جائے گا اور سٹور کا عملہ ایک وقت میں گاہکوں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں سٹور کے اندر بھیجیں گے۔
ضلعی حکومت اور پولیس کے جاری کردہ احکامات کے مطابق سٹور مالکان دکان میں سماجی دوری کا خاص خیال بھی رکھیں گے۔ مگر کیا ان احکامات پر عمل ہو رہا ہے؟
لاہور کے مختلف علاقوں سے کچھ لوگوں نے بتایا کہ ان کے آس پاس موجود افراد کرونا وائرس کو ایک مذاق سمجھ رہے ہیں اور لاک ڈاؤن ان کے لیے ایک تفریح بن گیا ہے۔
لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں رہنے والی عائشہ باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں، دکانوں پر جائیں تو گاہکوں کا ہجوم دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ دکان دار کوئی چیز مفت میں بانٹ رہے ہیں۔
عائشہ نے بتایا کہ ان کے گھر کے قریب ایک بچوں کا پارک ہے اور وہاں بھی شام ہوتے بڑے بچے سبھی کھیلنے کے لیے آجاتے ہیں۔ جس سوسائٹی میں وہ رہتی ہیں وہاں گھر میں کام کرنے والے ملازمین کا آنا جانا بند کر دیا گیا تھا مگر اب اس کی بھی اجازت مل گئی ہے۔
ثنا رضا ماڈل ٹاؤن کی رہائشی ہیں جو بتاتی ہیں کہ انہیں تو کوئی بھی لاک ڈاؤن کی پابندی کرتا نظر نہیں آرہا۔ ’شام پانچ بجے سے کچھ دیر پہلے سٹورز میں رش بڑھ جاتا ہے۔‘
علامہ اقبال ٹاؤن کی سندس وحید نے بتایا کہ ان کے محلے میں جب کوئی ایک دوسرے سے ملتا ہے تو گلے لگا کر ملتا ہے اور اگر منع کریں تو برا مان جاتے ہیں۔
اسی طرح لاہور کینال کووآپریٹیو ہائوسنگ سوسائٹی کی رہائشی رابعہ نے بتایا کہ ان کی سوسائٹی میں پارلرز، درزی اور دیگر دکانیں بھی کھلی ہیں اور لوگ کسی حفاظتی اقدام کی پرواہ نہیں کر رہے۔ ویلنشیا کی رہائشی نے بھی بتایا کہ یہاں کے سٹورز بھی گاہکوں سے بھرے ہوتے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کی رہائشی صدف نے بتایا کہ یہاں بھی حالات مختلف نہیں البتہ لوگ ماسک اور دستانے پہن کر نکلتے ہیں اور دکانوں میں بھی دکاندار ماسک پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔
ای ایم ای سوسائٹی (ڈی ایچ اے) کی رہائشی درخشان نے بتایا ان کے یہاں حالات کچھ بہتر ہیں، دکانوں پر رش نہیں اور رہائشی کافی احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
ان سب خواتین کی گفتگو سننے کے بعد شہر کا مختصر سروے کیا گیا تو سڑکوں پر ٹریفک معمول سے زیادہ دکھائی دیا، راستے میں جگہ جگہ لگی پھلوں سبزیوں کی ریڑھیوں کے قریب گاڑیاں بھی کھڑی دکھائی دیں اور گاہک بھی۔
لاہور کی پیراگون سوسائٹی میں واقع ایک بڑے سٹور پر چھوٹے بڑے یہاں تک کہ کچھ نومولود بچے بھی دکھائی دیے۔ بیشتر گاہکوں نے ماسک پہنا تھا نہ دستانے یہاں تک کہ جن کے ساتھ چھوٹے بچے تھے انہوں نے بھی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سٹور میں موجود گارڈز گاہکوں کے پاس آتے اور انہیں ایک دوسرے سے دور کھڑا ہونے کا کہتے مگر اس غریب کی کوئی بھی نہیں سن رہا تھا۔
اس سٹور میں موجود سبھی گاہک ڈی ایچ اے، پیراگون، عسکری ٹین یا اسی طرح کے کسی قریبی پوش علاقے سے آئے ہوئے ہوں گے اور سبھی اپنی چال ڈھال سے پڑھے لکھے اور اچھے گھروں کے دکھائی دے رہے تھے۔
تھوڑی دیر میں سٹور کے مینیجر نظر آئے، جو بیچارے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ آپ کسی قسم کا کوئی حفاظتی اقدام کیوں ںہیں اپنا رہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ 'ہم نے سٹور کے باہر اور اندر لکھ کر لگایا ہے کہ بوڑھے اور بچے گھر پر چھوڑ کر آئیں اور سٹور کے اندر فاصلہ رکھیں مگر ہم کیا کر سکتے ہیں لوگ نہیں سنتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سٹور صبح ساڑھے آٹھ بجے کھلتا ہے اور ساڑھے چار بجے تک بند ہو جاتا ہے مگر پورا دن کوئی گاہک یہاں نہیں آتا، جیسے ہی تین بجتے ہیں لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہاں رش بڑھ جاتا ہے۔
’اب ہم انہیں نکال تو سکتے نہیں۔ ہم نے کیش کاؤنٹرز پر بھی سماجی دوری کے لیے نشان لگائے ہیں تاکہ لوگ ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے ہوں۔‘
سٹور کے ایک سیلز مین نے بتایا کہ ان گاہکوں میں کچھ گاہک ایسے بھی ہیں جو ہر روز بلاناغہ سٹور میں آتے ہیں اور ایک دو چیزیں خرید کر لے جاتے ہیں۔
لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں موجود جاننے والوں سے وہاں کے حالات کا پوچھا تو کم و بیش یہی صورتحال سننے کی ملی۔
صوبائی حکومت نے دکانیں نو سے پانچ بجے تک کھولنے کا حکم دیا تھا مگر پانچ بجے کے بعد چھوٹے سٹور گاہکوں کے لیے اپنے ’چور دروازے‘ کھول دیتے ہیں بلکہ اس کے حوالے سے تو پنجاب پولیس کے کچھ افسران نے ویڈیوز بھی ٹویٹ کیں ہیں جن میں انہوں نے جب دکانوں کے بند شٹر کھولے تو اندر دکان دار اور گاہک موجود تھے۔
کینیڈا، امریکہ اور اٹلی میں رہنے والے کچھ دوستوں اور رشتے داروں نے بتایا کہ وہاں بڑے سٹورز میں ایک وقت میں پانچ سے 10 لوگ جاتے ہیں جب کہ چھوٹے سٹورز پر گاہکوں کو ٹوکن دیا جاتا ہے اور اپنی باری پر صرف ایک شخص دکان کے اندر جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود ان ممالک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اموات کی تعداد دیکھیں تو مزید خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ اتنی احتیاط کے بعد بھی وہاں کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے تو پاکستان میں اس بد احتیاطی کا آئندہ آنے والے دنوں میں کیا نتیجہ نکلنے والا ہے؟
اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ حافظ قیصر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے لاک ڈاؤن بڑھانے کا نوٹفیکیشن جاری کیا تھا اس پر عمل درآمد کروانا ضلعی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔'
ضلعی حکومت کے ترجمان عمران مقبول کہتے ہیں کہ ضلعی حکومت اس چیز سے واقف ہے کہ لوگ احتیاط نہیں کر رہے، ہم نے کچھ سٹورز وغیرہ بند کیے ہیں مگر ہم زیادہ ایکشن نہیں لے سکتے کیونکہ اس طرح لوگوں میں خوف و ہراس پھیل جائے گا۔'
انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ طبی ماہرین سے بھی بات کی اور سبھی کا یہ مشاہدہ تھا کہ لوگ لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ اگلے آنے والے چند روز میں کافی خوف ناک ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ شاید حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔