سال 2020-2021 بجٹ سے پہلے افواج پاکستان کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کا خط وزارت دفاع نے وزارت خزانہ کو بھجوا دیا جس کے سوشل میڈیا پر عام ہونے کے بعد بحث کا نہ ختم والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس حوالے سے وزارت خزانہ کے ایک عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رواں برس بجٹ میں وزارت دفاع سمیت تنخواہوں کی مد میں اضافے کے لیے ہر وزارت سے خط موصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’سیکرٹیریٹ کے ملازمین بھی مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے گذشتہ کئی ماہ سے تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اس لیے 15 فیصد ایڈہاک ریلیف اور 20 فیصد بنیادی تنخواہ میں اضافہ تمام سرکاری ملازمین کے لیے زیر غور ہے۔‘
اکانومی ایڈوائزری کمیٹی کے عہدے دار عابد سلہری نے انڈپینڈنٹ اردو بتایا کہ جب تک سٹریٹجک پیپر آؤٹ نہیں ہوتا تب تک حتمی نہیں کہا جا سکتا کہ کتنی تنخواہ بڑھائی جا رہی ہے لیکن جب ایک وزارت کی تنخواہ بڑھائی جاتی ہے تو پھر تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھائی جاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک محکمے کی تنخواہ میں اضافہ ہو اور باقیوں میں نہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ وزارت دفاع کے علاوہ دیگر وزارتوں نے بھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے خط بھجوائے ہیں۔
ایڈہاک اور بنیادی تنخواہ کے حوالے سے عابد سلہری نے بتایا کہ ایڈہاک ریلیف عارضی ریلیف ہوتا ہے جو مجموعی تنخواہ کے پانچ، دس یا پندرہ فیصد پر مشتمل ہوتا ہے۔ بنیادی تنخواہ کا فوری کوئی خاص ریلیف نہی ملتا لیکن اس سے پینشن اور دیگر الاؤنسز میں اسی شرح سے اضافہ ہو جاتا ہے۔'
حکومتی پالیسی کے مطابق سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ ماسوائے گذشتہ برس کے ہر سال دس فیصد کی شرح سے بڑھائی جاتی ہے۔ وزارت خزانہ حکام نے بتایا کہ موجودہ مالی سال یعنی 2019 - 20 میں دفاع کے لیے 1152 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا۔ اس سے پچھلے سال یعنی 2018-19 میں دفاعی بجٹ 1100 ارب روپے تھا۔ حالیہ برسوں کے دوران ہر سال دفاعی بجٹ میں اوسطاً پانچ سے دس فیصد اضافہ ہوتا آیا ہے۔
دفاعی بجٹ کے دو حصے ہوتے ہیں پہلا تنخواہ اور پنشن اور دوسرا دفاعی ساز و سامان کی خرید و فروخت اور دفاعی تیاری۔ پنشن تاہم کو پہلے ہی دفاعی بجٹ سے الگ کر دیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں عسکری ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ پانچ سال سے تنخواہیں نہیں بڑھیں بلکہ گذشتہ برس ٹیکس بڑھنے کی وجہ سے تنخواہ پہلے سے کم ہو چکی ہے۔ ایڈہاک ریلیف کی مد میں مجموعی تنخواہ پر دس فیصد اضافہ 2015 سے 2018 تک کیا گیا لیکن پچھلے سال بھی پانچ فیصد تھا۔
گریڈ سترہ سے اوپر کسی افسر کی بنیادی تنخواہ 2014 کے بعد نہ بڑھنے اور ایڈہاک ریلیف کے معاملے پر جب پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے انڈہینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس پر سرکاری بیان نہیں دے سکتے لیکن جب دو متعلقہ وزارتیں، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ نے آپ کو تصدیق کر دی ہے تو ایسا ہی ہے۔'
وزارت دفاع حکام کے مطابق پانچ برس سے فوج کی بنیادی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ عارضی ریلیف دیا جاتارہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’فوج کے علاوہ دیگر محکموں کی بنیادی تنخواہ میں بلاناغہ ہر سال دس فیصد بنیادی تنخواہ میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے وزارت دفاع نے خط میں یکم جولائی 2020 سے تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کا کہا ہے۔‘
سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ افواج پاکستان کے ملازمین کی تنخواہیں دیگرسرکاری ملازمین سے زیادہ یا مختلف ہیں۔ سرکاری تنخواہ وہی ہے جو حکومت مختص کرتی ہے اور وہ سب کی ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ہر کام کی مختلف نوعیت ہوتی ہے۔ اگر کوئی فیلڈ میں ہے تو اس کا الاؤنس بھی تنخواہ میں شامل کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جہاں تک بات ہے کہ 80 ارب تنخواہ اور پینشن میں سے 63.6 ارب روپے فوج نے مانگ لیے ہیں تو فوج کے ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین کا حجم بھی بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ یہ پورے پاکستان کے تنخواہ کے بجٹ سے ہے کیونکہ باقی 16 ارب پورے پاکستان کے لیے نہیں بلکہ وفاق کے ماتحت وزارتوں اور محکموں کے لیے ہیں جن کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔ این ایف سی کے تحت ہر صوبے کا اپنا الگ بجٹ ہوتا ہے جس سے وہ اپنے ملازمین اور سرکاری محکموں کی تنخواہیں ادا کرتے ہیں۔‘
فوجی مراعات، حقیقت یا افسانہ:
عام طور پر پاکستانی افواج کے بارے میں تاثر یہ لیا جاتا ہے کہ شاید سول محکموں کی نسبت فوج میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اور مراعات زیادہ ہیں۔ اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے عسکری ادارے سمیت تمام سول محکموں سے معلومات حاصل کیں جن کے مطابق گریڈ 17 کا ملازم جو سیکنڈ لیفٹینٹ سے کیپٹن تک ہوتا ہے، اُس کی تنخواہ جو اکاؤنٹ میں آتی ہے وہ 70 سے 75 ہزار تک ہوتی ہے۔ گھر کا کرایہ تنخواہ میں سے کٹ جاتا ہے اس کے علاوہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ کی مد میں مخصوص رقم بھی تنخواہ سے ہی کٹتی ہے۔
یہ پلاٹ ریٹائرمنٹ کے بعد ملتا ہے اور پلاٹ کی جو باقی رقم رہ جاتی ہے وہ یکمشت ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یوٹیلٹی بل خود ادا کرنے ہوتے ہیں۔ سرکاری کاموں کے لیےگاڑی بھی زیر استعمال ہوتی ہے اس کے علاوہ ایک عدد ملازم بھی مل جاتا ہے جسے بیٹ مین کہا جاتا ہے جس کی تنخواہ حکومت پاکستان ادا کرتی ہے۔ اصل مراعات مفت میڈیکل کی سہولت ہے۔
اسی طرح گریڈ 18 کے افسر کے اکاؤنٹ میں 85 ہزار روپے آتے ہیں جب کہ باقی سہولیات جو اوپر بیان کی ہیں ایک جیسی ہیں۔
سپاہی کی تنخواہ 20 ہزار سے شروع ہوتی ہے جو وقت اور رینک کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے جبکہ کھانا، رہائش اورمیڈیکل مفت ہوتا ہے۔
عسکری اور سویلین ملازمین کی تنخواہوں میں کیا فرق ہے؟
سرکاری ذرائع کے مطابق سول وزارتوں میں گریڈ 17کے ملازمین کی تنخواہ اور مراعات مختلف محکموں میں مختلف ہیں۔ فوجی ملازمین کی طرح تمام سول سرکاری ملازمین بھی فیڈرل ایمپلائیز ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ آسان اقساط پر حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ نیچے دیے گئے چارٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 17 گریڈ کے مساوی فوجی افسر کی تنخواہ کا دوسرے سرکاری محکموں کے 17 گریڈ کے افسران کے ساتھ کیا تقابل بنتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ہر محکمے میں گاڑی، ملازم، رہائش اور دوسری اضافی مراعات مختلف ہوتی ہیں۔
کس وزارت میں ملازمین کا کتنا حجم ہے؟
وزارت دفاع حکام کے مطابق افواج پاکستان کی تعداد جس میں بری فوج چھ لاکھ 70 ہزار، فضائیہ 73 ہزار، بحری فوج 36 ہزار جبکہ سٹریٹجک پلان ڈویژن 21 ہزار ہے۔ کُل ملا کر آٹھ لاکھ ملازمین ہیں جن کی تنخواہ دفاعی بجٹ سے اداکی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین کی تعداد الگ ہے جن کی پینشن بھی اُسی مختص کردہ رقم سے ادا ہوتی ہے۔
جبکہ ایف سی، رینجرز اور کوسٹ گارڈ جن کی کُل تعداد چار لاکھ 82 ہزار ہے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں اور ان کی تنخواہیں وزارت داخلہ کے بجٹ سے ادا ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ وفاقی ضلعی انتظامیہ، پولیس، ایف آئی اے، نادرا سمیت 18 محکمے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں جن کی تنخواہوں پینشن، اور دیگر اخراجات کا بجٹ وزارت داخلہ سے منسلک ہے۔
وزارت خارجہ حکام کے مطابق اسی طرح وزارت خارجہ جب سمری ارسال کرتی ہے تو ہر ملک میں تعینات مشن کا متعلقہ ملک کی کرنسی اور مہنگائی کے مطابق عملے کی تنخواہ اور الاؤنسز طے کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ ڈپلومیسی فنڈ کی مد میں خطیر رقم الگ مختص کی جاتی ہے۔
وزارت خزانہ حکام نے بتایا کہ وزارت خزانہ حکام کے ماتحت 1300 ملازمین ہیں جن کی تنخواہوں کا حجم 1.48 ارب روپے تھا لیکن مہنگائی کی شرح میں اضافے کے باعث رواں برس کے لیے جو خط بھجوایا گیا ہے اُس میں 1.69ارب روپے مانگے گئے ہیں۔