پاکستانی سائنس دان عبدالقدیر خان نےاپنی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔
جمعرات کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رُکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے سٹریٹجک پلان ڈویژن اور معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیے۔
ڈاکٹر عبد القدیر کی درخواست کا متن:
ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے درخواست میں کہا ہے کہ 'میری نقل و حرکت کو محدود کیا گیا ہے اور مجھ سے ملاقات کے لیے آنے والوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی، مجھے تعلیمی اداروں میں جانے اور وہاں لیکچر دینے کی اجازت دی جائے۔'
درخواست میں مزید کہا گیا کہ 'جب میں نیوکلیر پروگرام اور ایٹم بم بنانے میں مصروف تھا اس وقت نہ ہی میرے ساتھ گارڈز ہوتے تھے نہ میرے ساتھ کوئی بندوقیں تھیں، نہ فوجی اور نہ ہی رینجرز۔ اب میں 84 سال سے زیادہ عمر رسیدہ ہو چکا ہوں ، چلنا پھرنا مشکل ہے، میں اپنے ملک میں ہی ہوں اور باہر جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں ہے۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'میں جان دے دوں گا کبھی ملک سے غداری نہیں کروں گا لیکن میں ایک عام انسان کی طرح اپنی بقیہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔'
عدالت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اُن کی استدعا پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان سپریم کورٹ پیش ہوئے لیکن انہیں کمرہ عدالت میں نہیں لایا گیا بلکہ سپریم کورٹ کے عقبی گیٹ سے انہیں داخل کروا کر ججز بلاک میں رجسٹرار کے کمرے میں بٹھایا گیا۔ دوران سماعت وہ رجسٹرار کے کمرے میں ہی موجود رہے۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'اُن کے موکل سے انہیں ملاقات نہیں کرنی دی جا رہی اگر ایسا ہی تو میں کیس کے بارے میں ہدایات کیسے لوں گا؟'
عدالتی حکم پر اُن کے وکیل کی رجسٹرار کے کمرے میں ہی ملاقات کرائی گئی۔ رجسٹرار کے کمرے میں ملاقات کے بعد وکیل نے عدالت کو آ کر بتایا کہ اُن کے موکل سے انہیں اکیلے ملنے دیا جائے۔ عدالت کی ہدایت پر انہیں اکیلے ملنے کی ہدایت کی گئی تاکہ کیس سے متعلق ہدایات لے سکیں۔
عدالت کا موقف یہ تھا کہ یا تو درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جائے اور سپریم کورٹ سے واپس لی جائے چونکہ متعلقہ فورم اسلام آباد ہائی کورٹ ہے۔ یا 184/3 کے تحت نئی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی جائے۔
اس حوالے سے عدالت نے گزشتہ روز درخواست واپس لینے کے لیے وکلا کو ڈاکٹر قدیر سے ہدایات لینے کا کہا تھا۔
ملاقات کے بعد وکیل توفیق آصف نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا خط عدالت میں پیش کردیا۔ ہاتھ سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ 'اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمے کے دوران زبردستی دستخط کروائے گئے۔ موجودہ صورتحال میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔ مجھے سپریم کورٹ لا کر بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔'
خط میں مزید کہا گیا کہ حکومت نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ قید میں رکھنا میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے خط کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا اور سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ میں بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے درخواست دائر کی تھی کہ انہیں حکومت نے گھر میں نظر بند کر رکھا ہے اور نقل وحرکت کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اس لیے عدالت نظر بندی ختم کرکے نقل وحرکت کی اجازت دے۔ جبکہ حکومت نے موقف دیا تھا کہ 'حساس معاملات ہونے کی وجہ سے ان کی سیکیورٹی ضروری ہے۔'
لاہور ہائی کورٹ نے حکومتی دلائل سننے کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نظر بندی کیوں ہوئی تھی؟
سنہ 2003 میں اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ادارے واچ ڈاگ نے اسلام آباد کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی جوہری سائنس دانوں نے جوہری راز فروخت کیے ہیں۔ بعد ازاں سرکاری ٹی وی پر آ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے جرم کا اعتراف کیا جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ فروری سنہ 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کی نظر بندی ختم کرنے کے احکامات جاری کیے اور کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر ایک آزاد شہری ہیں۔ عدالتی حکم پر ان کی نظر بندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند ہیں اور ہر وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے ہیں۔
گزشتہ برس ڈاکٹر عبد القدیر خان نے حکومت کو ایک خط بھی لکھا لیکن اس کا جواب انہیں موصول نہیں ہوا۔