جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک گرجا گھر نے نماز کی ادائیگی کے لیے اُن مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں جو سماجی دوری کے قواعدوضوابط نافذ ہونے کے بعد مخصوص سے زائد تعداد میں مساجد میں نہیں جا سکتے۔
جرمنی نے اموات میں کمی کے بعد کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے کیے گئے لاک ڈاؤن میں نرمی کرنا شروع کر دیا ہے۔ چار مئی سے مذہبی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی تاہم عبادت کرنے والے کو ایک دوسرے سے ڈیڑھ میٹر کے فاصلے پر رہنا ہو گا۔
برلن کے جدید علاقے کروزبرگ میں واقع مارتھا لُوتھیرن گرجا گھر نے اُن لوگوں کو میزبانی کی پیش کش کی جو رمضان کے اختتام پر نماز جمعہ ادا کرنا چاہتے تھے لیکن کرونا وائرس کے باعث نافذ ضوابط کی وجہ سے انہیں مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برلن کے علاقے نائیکون کی دارالسلام مسجد میں اب معمول سے بہت کم تعداد میں لوگوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت ہے۔
مسجد کے امام نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا: 'یہ بہت بڑی علامت ہے جس سے رمضان اور اس بحران میں خوشی ملی ہے۔ وبا میں ہمیں ایک برادری بنا دیا ہے۔ بحران لوگوں کواکٹھا کر دیتے ہیں۔'
سمر حمدون نامی ایک نمازی نے کہا: 'موسیقی کے آلات اور تصاویر کی موجودگی میں یہ عجیب محسوس ہوا لیکن جب دیکھتے ہیں تو چھوٹی موٹی باتیں بھول جاتے ہیں۔ بالآخر یہ خدا کا گھر ہے۔'
جرمن حکام نے ہفتے کو کہا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد جن 40 سے زیادہ افراد نے فرینکفرٹ کے گرجا گھر میں ہونے والی سروس میں شرکت تھی وہ سماجی دوری کے قاعدے پر عمل کے باجود کرونا وائرس کا شکار ہو گئے۔
برلن میں 15 مئی سے ریستوران اور کیفے کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن سماجی دوری کے سخت قواعدوضوابط پر عمل کرنا ہو گا جن کے تحت ایک دوسرے سے ڈیڑھ میٹر دور رہنا ہو گا جب کہ ویٹر کو ماسک لگانے کے پابند ہوں گے۔
بیماریوں پر کنٹرول اور ان کے تدارک سے متعلق جرمن ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق جرمنی میں کرونا وائرس سے 8216 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 177850 متاثرین ہیں۔
© The Independent