عالمی ادارۂ صحت نے 2020 کو نرس اور مڈوائف کا سال قرار دیا ہے۔ اسی مناسبت سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک خصوصی سیریز تیار کی ہے اور مندرجہ ذیل رپورٹ اسی کا حصہ ہے۔ اس سیریز کے دوسرے حصے یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔
لاہور کے جنرل ہسپتال کی سینیئر نرس اشک ناز 29 سال سے نرسنگ کے پیشے سے وابسطہ ہیں۔ انہیں نرسنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا اور انہوں نے اپنا یہ جنون اپنی دو بیٹیوں اور دو بھتیجیوں میں بھی منتقل کر دیا۔
اشک ناز کی نرسنگ سے محبت تب شروع ہوئی جب وہ میٹرک کر رہیں تھیں اور ان کے بہنوئی اپینڈیکس کے آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل ہوئے۔
وہ بتاتی ہیں: ’میں ہسپتال جایا کرتی تھی تو وہاں موجود باجیاں جنہوں نے یونیفارم پہنا ہوتا تھا اور مریضوں کی خدمت کر رہی ہوتی تھیں، وہ مجھے بہت اچھی لگیں۔ اتنی اچھی کہ میں نے سوچ لیا کہ میں نے بھی انہی باجیوں کی طرح کام کرنا ہے اور نرسنگ کا پیشہ اپنانا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب ان کا میٹرک کا رزلٹ آیا تو انہوں نے اپنے والدسے کہا کہ انہیں نرسنگ کرنی ہے۔ والد نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ بڑی بہن ٹیچر ہے اور ان کے خاندان سے کوئی کبھی اس شعبے میں نہیں گیا۔ تاہم اشک نے ہار نہیں مانی اور والد کو منانے میں کامیاب ہوگئیں۔
انہوں نے میٹرک کے بعد نرسنگ میں داخلہ لیا۔ آج ان کو اس شعبے میں انتیس سال ہوگئے ہیں اور وہ چار سالوں میں ریٹائر ہونے والی ہیں۔
اشک ناز نے بتایا کہ اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے معاشرے کے خیالات بہت عجیب سے ہیں۔ ’کچھ لوگ اس پیشے کو ٹھیک نظر سے نہیں دیکھتے مگر یہ ان کی سوچ ہے، لوگ تو یہی سمجھتے ہیں کہ نرسنگ ایک فضول پیشہ ہے، جسے کوئی اور کام نہیں ملتا وہ نرسنگ میں آجاتا ہے لیکن ان کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگر نرسز نہیں ہوں گی تو مریضوں کو کون دیکھے گا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ لوگ کرونا (کرورنا) وائرس سے لوگ کافی ڈرے ہوئے ہیں مگر نرسیں فرنٹ لائن وکرز کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ’ہمارے اپنے ہسپتال کا بہت سارا سٹاف کرونا کا شکار ہو رہا ہے لیکن پھر بھی ہمیں اس چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ جب آپ اس شعبے میں آجاتے ہیں تو پھر ڈرنے والی تو کوئی چیز بچتی ہی نہیں کیسے کیسے مریض نہیں دیکھتے ہم لوگوں نے؟ ہم تو ایک سپاہی کی طرح ہیں جو جنگ کے میدان میں اتر گیا تو اتر گیا۔‘
اشک نے بتایا کہ بعض مریض نرسوں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں لیکن انہیں سکھایا گیا ہے کہ انہیں صبر سے کام لینا ہے۔ ’ویسے بھی ہسپتال وہی شخص آتا ہے جو کسی تکلیف یا پریشانی میں ہو۔ اور اگر ہمارا سلوک اچھا نہیں ہو گا تو یقینی طور پر وہ بھی اضطراب کا شکار ہوں گے۔ ہمیں تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ مشکلات تو بہت سی آتی ہیں مگر ہم ان کا سامنہ کر کے آگے گزرجاتے ہیں۔‘
اشک کا ماننا ہے وہ اس پیشے میں کام کر کے بہت خوش قسمت رہی ہیں۔ چوداں سال پہلے ان کی شوہر کا انتقال ہوگیا تھا۔ ایسے میں اس نوکری نے انہیں اس قابل رکھا کہ وہ اپنے پانچ بچوں کو پال سکیں۔ انہوں نے بتایا: ’یہی وجہ ہے کہ مجھے نرسنگ میں مزید کورسز کا وقت نہیں ملا مگر اب میری بیٹیاں اسی شعبہ میں سپیشلائزیشن کر رہی ہیں۔‘
اشک کی دو بیٹاں بھی نرس ہیں جبکہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتا ہے۔
نرسنگ کا جنون بچوں میں بھی
نایاب امین اشک ناز کی بڑی بیٹی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نایاب کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ ان کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔
انہوں نے کہا: ’والد کے بغیر جس طرح انہوں نے ہمیں پالا ہے میں نے وہ ساری جدوجہد دیکھی ہے۔ وہ ایک بہت اچھی ماں، والد اور ضرورت پڑنے پر ایک دوست کا روپ اختیار کر لیتی ہیں۔ میرے لیے وہ میری پوری دنیا ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’نرسنگ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں آپ آپنے آپ کو اپنی قوم کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جو آپ اپنے پیاروں کے علاوہ ان کی کرتے ہیں جن کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے لیے اس شعبہ کا حصہ ہونا ایک فخر کی بات ہے۔‘
25 سالہ نایاب کا کہنا ہے مریضوں کو دیکھ کر ان کے دل میں خیال آتا ہے کہ ان کے پیارے بھی اسی حالت میں ہو سکتے ہیں تو ان کا دل دکھتا ہے۔ ’ہم نے حلف لیا ہوتا ہے اس لیے ہم ان سے ہمدردی کر سکتے ہیں لیکن جذباتی نہیں ہوسکتے۔ ہم انہیں دلاسا دے سکتے ہیں مگر انہیں یہ نہیں بتا سکتے جو ہم خود ان کی تکلیف کو دیکھ کر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔‘
نایاب کہتی ہیں کہ جب کسی مریض کی تکلیف ذہن پر سوار ہو جائے اور وہ ذہنی دباؤ محسوس کرتی ہیں تو وہ کچھ موٹیویشنل سپیکرز کو سن لیتی ہیں جس سے ان کا حوصلہ پھر بلند ہو جاتا ہے۔
نایاب نرسنگ میں مزید سپیشلائزیشن کے کورس کر رہی ہیں۔ وہ مستقبل میں اسی پیشے میں ٹیچنگ میں جانا چاہتی ہیں تاکہ وہ نئی ریسرچز اور حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے اعلیٰ میعار کی نرسوں کی تربیت کر سکیں تاکہ وہ اپنے اس شعبہ کو مزید عزت دار اور قابل اعتماد بنا سکیں۔
سیماب امین اشک ناز کی دوسری بیٹی اور نایاب کی چھوٹی بہن ہیں۔ انہوں نے بھی نایاب اور اپنی والدہ کی طرح اسی شعبہ میں آنے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے بتایا: ’میں نے اپنی والدہ سے متاثر ہو کر اس پیشے کو چنا۔ مجھے خدمت خلق کا شوق ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ابھی وہ ایکسیڈینٹ ایمرجنسی میں سپیشلائزیشن کر رہی ہیں مگر اس کے بعد وہ آر این کریں گی اور اپنی زندگی کو خدمت خلق کے لیے وقف کریں گی تاکہ ان کی زندگی سے دوسروں کوفائدہ پہنچے۔
انہوں نے کہا: ’میں نرسنگ کے شعبہ میں آکر بہت خوش ہوں اور اس شعبہ میں مزید اچھی نرسیں پروڈیوس کروں گی کیونکہ میرے خیال میں اگر آُپ ایک جان کوبچاتے ہو تو آپ ایک اچھے انسان ہیں ۔ اگر آپ ہزاروں جانیں بچاتے ہیں تو آپ ایک اچھی نرس ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ میں ہزاروں انسانوں کی جانوں کو بچاؤں گی۔‘