بھارتی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر محمد شامی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر تھوک یا پسینے کا استعمال کیے بغیر ہی گیند کو ریورس سوئنگ کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کرونا وبا کے دوران کھیل کو بحال کرنے کے اقدام کے تحت آئندہ ہفتے بال کو چمکانے کے لیے تھوک کے استعمال پر عارضی پابندی کا حکم جاری کر سکتی ہے۔
فاسٹ بولر روایتی طور پر ریورس سوئنگ کرانے کے لیے پسینے یا تھوک کا استعمال کرتے ہوئے گیند کو ایک طرف سے چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
محمد شامی نے ایک آن لائن گفتگو میں کہا کہ بطور فاسٹ بولر وہ بچپن سے ہی بال چمکانے کے لیے تھوک استعمال کرنے کے عادی ہیں، اس لیے اسے چھوڑنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ 'اگر آپ ایک تیز گیند باز ہیں تو آپ کو یقیناً بال چمکانے کے لیے تھوک کا استعمال کرنا ہی پڑتا ہے لیکن اگر آپ خشک گیند کی چمک کو برقرار رکھ سکتے ہیں تو یہ یقیناً ریورس سوئنگ کرے گی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ ریورس سوئنگ کے لیے مشہور 29 سالہ شامی نے تھوک کے بغیر کوئی متبادل پیش نہیں کیا تاہم انہوں نے تاکید کی کہ پسینہ تھوک کا قابل عمل متبادل نہیں۔
'پسینہ اور تھوک مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس (پسینے) سے ریورس سوئنگ کرنے میں مدد ملے گی۔ میں نے تھوک کے بغیر کبھی بولنگ کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن اب کرونا وائرس کی وجہ سے تھوک کا استعمال بند کرنا بہت ضروری ہے۔'
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آسٹریلیا میں بال بنانے والی کمپنی 'کوکبورا' گیند کو چمکانے کے لیے ایک موم تیار کررہی ہے۔ تاہم آئی سی سی گیند چمکانے کے لیے کسی مصنوعی مواد کے استعمال کی اجازت نہیں دیتی۔
تقریباً تمام کھیلوں کی طرح کرکٹ کے میدان بھی کرونا وبا کے باعث اس وقت ویران ہو گئے جب بھارت اور بہت سے دوسرے ممالک نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تھا۔
آئی سی سی نےآئندہ ہفتے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اکتوبر، نومبر میں آسٹریلیا میں ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کھیلا جائے گا یا نہیں۔
محمد شامی نے اس بارے میں کہا کہ کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے کم از کم دو ہفتوں کی ضرورت ہوگی۔ 'ہم مشینیں نہیں ہیں، جن کا کبھی بھی سوئچ آن یا آف کیا جا سکتا ہے۔ کھلاڑی کی حیثیت سے آپ کے جسم کو ردھم میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔'
'اس عرصے (لاک ڈاؤن) میں کسی نے بھی بیٹ اور گیند کو ہاتھ نہیں لگایا لہٰذا ورلڈ کپ سے قبل 10، 15 دن کا کیمپ یا ایک، دو سیریز کھلاڑیوں کو ردھم میں واپس لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔'