بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع پر جھڑپ اور 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ان فوجیوں کی قربانی ’رائیگاں‘ نہیں جائے گی اور اگر اشتعال دلایا گیا تو بھارت جواب دینا بھی جانتا ہے۔
چین کے ساتھ لداخ کے علاقے گلوان وادی میں پیر کی شب پیش آنے والے اس واقعے کے بعد بھارت میں عوام اور مبصرین حکومت سے ’انتقام‘ کا مطالبہ کر رہے تھے، لیکن وزیراعظم مودی نے چپ سادھ رکھی تھی۔
تاہم آج انہوں نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے چین کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے 20 بھارتی فوجیوں کے بارے میں کہا کہ ان کی موت ’رائیگاں‘ نہیں جائے گی۔
ٹی وی پر قوم سے خطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا: ’میں اپنے ملک کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے فوجیوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے لیے ہمارے ملک کا اتحاد اور سالمیت سب سے اہم ہے۔‘
نریندر مودی نے مزید کہا: ’بھارت امن چاہتا ہے لیکن اشتعال دلانے کی صورت میں جواب دینا جانتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل چین اور بھارت کی افواج کے درمیان دہائیوں بعد ہونے والے مہلک ترین تصادم میں کم از کم 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک نے سرحدی کشیدگی کو پر امن طریقے سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے بدھ کو بیجنگ میں ہونے والی بریفنگ میں بتایا تھا کہ دونوں ممالک نے اس معاملے کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے اور کشیدہ صورت حال کو معمول پر لانے اور سرحدی علاقے میں امن و امان کے قیام کے لیے مل کر کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ترجمان نے چین کے دعوؤں کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ تصادم، جس میں ایک بھارتی افسر سمیت 20 فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے، بھارتی فورسز کی جانب سے چینی اہلکاروں کو مشتعل اور ان پر حملے کے نتیجے میں پیش آیا جس سے جانی نقصان ہوا۔
تاہم چینی ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ اس تصادم میں چین کا کوئی فوجی ہلاک یا زخمی ہوا یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’چین نے بھارت سے سخت احتجاج کیا ہے۔ ہم ایک بار پھر بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ اتفاق رائے پر کار بند رہے۔ بھارتی فرنٹ لائن فوج سرحد عبور کرنے، اشتعال انگیزی اور یکطرفہ اقدامات کرنے سے باز رہے جو صورت حال کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔‘
امریکہ کا اختلافات پر امن طریقے سے حل کرنے پر زور
دوسری جانب امریکہ نے بھی چین اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ پر امن طریقوں سے اپنے اختلافات کو حل کریں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’بھارت اور چین دونوں نے کشیدگی کو کم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور ہم موجودہ صورت حال کے پرامن حل کی حمایت کرتے ہیں۔‘
ترجمان نے کہا کہ امریکہ اس صورت حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکی ترجمان نے مزید کہا: 'ہم ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔'
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ خطے میں حالیہ کشیدگی کے تناظر میں وہ بھارت اور چین کے مابین ثالثی کرانے کے لیے تیار ہیں، تاہم ان کی انتظامیہ نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے دو جون کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے فون پر چین کے ساتھ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
بھارت امریکہ کا ابھرتا ہوا اتحادی ہے جس کی حمایت میں جنوبی ایشیا کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کی اعلیٰ عہدے دار ایلس ویلز نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ چین بھارت کے ساتھ موجودہ صورت حال کو خراب کرنے کا ذمہ دار ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی لداخ میں جاری کشیدگی کا الزام بیجنگ کے سر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین اس صورت حال میں 'غنڈہ گردی' کر رہا ہے۔
اس سے قبل منگل کی شب بھارتی فوج نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ لداخ کے متنازع علاقے گلوان وادی میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان جھڑپ میں ایک افسر سمیت کم از کم 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔
بیان کے مطابق تصادم میں ایک افسر سمیت تین بھارتی فوجی ہلاک جب کہ 17فوجی اس جھڑپ میں بری طرح زخمی ہوئے تھے اور ’انہیں انتہائی اونچے مقام پر منفی درجہ حرارت کا سامنا تھا۔ یہ فوجی بھی بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔‘
بھارتی فوج کا کہنا تھا کہ وہ ملک کی سرحدوں اور سالمیت کے تحفظ کے لیے تیار ہے۔ پیر کی شب پیش آنے والے اس واقعے میں دونوں فریقوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم چین کی طرف سے ابھی تک کسی جانی نقصان کی تصدیق نہیں کی گئی۔ چینی فوج کے ترجمان زانگ شولی نے جھڑپوں کے بعد جاری ایک بیان میں بھارتی سکیورٹی فورسز پر لائن آف ایکچول کنٹرول کو کراس کرنے اور جان بوجھ کر اشتعال انگیز حملے کرنے کا الزام عائد کیا۔
دوسری جانب بھارتی دفاعی ماہرین نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ متنازع سرحد پر چار دہائیوں بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ بدترین تصادم ہوا ہے۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار ہیپیمن جیکب نے کہا: 'ہمارا کم از کم 45 سالوں سے لائن آف ایکچول کنٹرول پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ یہ واقعہ شاید گیم چینجر ثابت ہو۔ یہ شاید اس ہم آہنگی کے خاتمے کا آغاز ہے جو بھارت نے 45 سالوں سے چین کے ساتھ قائم کی تھی۔'
گذشتہ ماہ سےہمالیہ کے اس سرحدی خطے میں تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔ نئی دہلی اور بیجنگ دونوں نے ایک دوسرے پر متنازع علاقے میں دراندازی کے الزامات عائد کیے،جس سے دونوں جوہری ہمسایہ طاقتوں نے اس آگ کو بھڑکا دیا ہے جس نے 1962 میں دونوں ممالک کے مابین خونی جنگ کو جنم دیا تھا۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے ڈائریکٹر سی راجہ موہن نے بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کو بتایا کہ چینی سٹیبلشمنٹ اور دیگر (پاکستان اور بھارت مخالف کشمیری رہمنا) جموں و کشمیر کی تبدیل شدہ آئینی حیثیت کو پی ایل اے کی جارحیت کا جواز بنا کر پیش کر رہے ہیں اور وہ بیجنگ کو تنازع کشمیر کا فریق بنانا چاہتے ہیں۔