امریکہ کے شہر میناپولس میں افریقی نژاد سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے متعدد امریکی ریاستوں اور شہروں میں ہلاکت خیز پولیس کارروائیوں پر پابندیوں کا قضیہ، سکیورٹی اور مجمع قابو کرنے کے شعبوں میں امریکی اور اسرائیلی تعاون جیسے موضوعات ان دنوں ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
کیلفورنیا سے نیویارک اور واشنگٹن ریاست سے میناپولس تک تمام مقامی، ریاستی اور وفاقی حکام کو ’مشتبہ‘ افراد پر قابو پانے کے لیے ان کی گردن دبوچنے جیسے اقدامات سے روک دیا گیا ہے۔ یہ پابندی پولیس کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر غور کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ان پر ملک کے طول وعرض میں افریقی امریکیوں سمیت دوسری کمزور اقلیتوں کو غیر مناسب انداز میں تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں۔
پولیس کو فوجی ماڈل کے تحت منظم کرنے سے متعلق بحث امریکی میڈیا میں گاہے گاہے ہوتی رہتی ہے۔ امریکہ میں نسل پرستی اور پولیس تشدد کی تاریخ برسوں پرانی ہے، تاہم معمولی جرائم کے شبہے میں امریکی پولیس کا فوجی راست اقدام کی طرز پر تشدد کا استعمال حالیہ چند برسوں میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ نمونہ دراصل اسرائیل سے درآمد کیا گیا ہے۔
امریکہ کے مختلف شہروں میں پبلک سیفٹی سمیت پولیس کو فنڈ فراہمی سے روکنے جیسے امور پر بحث مباحثہ زور پکڑ رہا ہے۔ تاہم امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور محاصرہ زدہ غزہ اور مقبوضہ غرب اردن میں فلسطینیوں کو قابو کرنے کے لیے امریکی ایلیٹس کی جانب سے اسرائیلی ماڈل کی پسندیدگی پر وہ تبادلہ خیال دیکھنے میں نہیں آیا جس کی بڑے پیمانے پر امریکہ میں تشدد کے بعد توقع کی جا رہی تھی۔
’سلیٹ‘ نامی میگزین میں سی آئی اے جنرل کونسل رپورٹ [ستمبر 2001 کو] شائع ہوئی جس میں تشدد روکنے کے اسرائیلی حربوں کو اس بنا پر تبادلہ خیال کا موضوع بنایا گیا کہ گزند سے روکنے کے لیے متبادل طریقہ کار کی عدم موجودگی میں مطلوبہ شخص کے خلاف طاقت کا استعمال کتنا ضروری ہو جاتا ہے۔
امریکہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں 8 جون 2020 کو فلسطینی اسرائیلی فوجیوں کی ایک تصویر اٹھائے ہوئے ہیں جس میں ایک فلسطینی نوجوان کو گرفتار کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)سی آئی اے کی مذکورہ دلیل کے ساتھ 11 ستمبر 2001 کی تاریخ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دن اسرائیل اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ محبت کا نقطہ آغاز ثابت ہوا جس نے امریکہ – اسرائیل تعلقات کی نئی تاریخ رقم کی۔ اس دن کے بعد سے امریکہ نے اسرائیل کو ’کلائنٹ سٹیٹ‘ کے درجہ سے نکال کر حقیقی معنوں میں اپنا ہم پلہ شریک بنایا۔
امریکی سی آئی اے اور دیگر جاسوسی اداروں کے درمیان تعاون دیکھتے ہی دیکھتے فوجی اور سیاسی بیانیے کا عنوان بن گیا۔ سابق صدر براک اوباما نے 2010 جون کو دیے اپنے ایک بیان میں ’امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو ناقابل شکست‘ قرار دیا تھا۔
اسرائیل-امریکہ تعلقات کو ’ناقابل شکست‘ اسی لیے قرار دیا جاتا ہے کہ ایک مدت سے امریکہ کی اقتصادی، فوجی اور جاسوسی تعاون کا حق دار تل ابیب، سکیورٹی ٹیکنالوجی، آئیڈیاز اور دہشت گردی کے خلاف استعمال کیے جانے والے حربے واشنگٹن کو برآمد کرنے والا سرکردہ ملک بن گیا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے ان مشکل لمحات کا تعاون صرف فوجی ہارڈ ویئر اور جاسوسی پر مبنی معلومات کے تبادلے تک محدود نہیں۔ دراصل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد دانش کے تبادلے پر مبنی ہے۔ اسرائیل کامیابی سے فسلطینیوں اور عرب ’دہشت گردی‘ کے مقابلے کے ساتھ جس خوبصورتی سے اپنی ’جمہوریت‘ کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے، اس کے مقابلے میں امریکہ خود کو ہیچ محسوس کرتا ہے۔
یہاں اس امر کا اظہار برمحل محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش انتہا پسند اسرائیلی منصف اور سیاستداں نطان شارنسکی کو اپنا اتالیق اور روحانی باپ سمجھتے تھے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی جنوری 2005 کی ایک اشاعت میں انکشاف کیا کہ شارنسکی کو ایک مرتبہ مسٹر بش نے اوول آفس آنے کی دعوت دی جہاں امریکی صدر نے اسرائیلی مصنف کی کتاب’جمہویت کا مقدمہ: ظلم اور دہشت پر قابو پانے میں آزادی کا کردار‘ پر سیر حاصل تبادلہ خیال کیا۔
یہ واقعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک معمولی سا اسرائیلی مصنف کیسے آزاد وخودمختار عرب ملکوں پر امریکی لشکر کشی کے لیے رہنما اصول وضع کرتا رہا۔ اسی عرصے میں امریکہ کا بدنام زمانہ ’فلسطینی کرسی‘ طرز کا منظم طریقہ تشدد عراق، افغانستان اور دیگر ملکوں میں واشنگٹن کی جنگوں کے دوران خوب مشہور ہوا۔
’فلسطینی کرسی‘ طرز کا طریقہ تشدد امریکہ اور اسرائیل کے درمیان سکیورٹی تعاون کی ایک کھلی کتاب کے طور پر موجود ہے۔ امریکہ، اسرائیل کے درمیان سیاسی، فوجی اور جاسوسی کی بنیاد پر رچائی جانے والی شادی جلد ہی عراق سے ہوتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بن گئی جہاں اسرائیل کے اسلحہ ساز، ہر امریکی ضرورت کا خیال کرتے تھے۔ اسرائیل، امریکہ کے ہوائی اڈوں کی سکیورٹی، مانیٹرنگ ٹاورز، سکیورٹی دیواروں اور باڑ لگانے سے لے کر جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی واشنگٹن کو فراہم کرنے لگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کی فوجی ساز وسامان تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ’ایلبیٹ سسٹمز‘ کے صہیونی ریاست سے کاروباری مراسم کے بعد قسمت کی دیوی کمپنی پر مہربان ہو گئی۔ میدان جنگ کے لیے جدید سامان ضرب وحرب اور جاسوسی آلات کو ’ایلبیٹ سسٹمز‘ جیتے جاگتے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں پر کامیابی سے آزما چکی ہے۔
ہزاروں پولیس افسروں کو اسرائیل میں تربیت کی فراہمی نہتے امریکیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے تعاون کی صرف ایک مثال ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنینشل نے ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ نائن الیون حملوں کے بعد ’اینٹی ڈیفیمنشن لیگ، انٹرچینج اور جیوش انسٹی ٹیوٹ فار نینشل سکیورٹی آفیئرز کی امریکی جیوش کمیٹی کے بینر تلے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں خدمات سرانجام دینے والے پولیس افسروں، اسسٹنٹس چیفس اور کپتانوں کی تن خواہ ادا کی جاتی رہی ہے۔‘
یہ دیگ کے چند چاول تھے۔ اسرائیلی فوجی مینوئل بین الاقوامی طور پر تسلیم کردہ رولز آف کنڈکٹ کو خاطر میں نہیں لاتا، یہی وجہ سے کہ تل ابیب، امریکی پولیس کے دسیوں شعبوں میں دخیل دکھائی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی پولیس افسروں کی وردی بھی لڑاکا فوجیوں سے مشابہ استعمال ہو رہی ہے۔
کامیابی کے ساتھ امریکی سکیورٹی کو سہارا دینے کی روزمرہ اسرائیلی کوششوں کے باعث آج تل ابیب، کانگریس جیسے روایتی فیصلہ ساز سیاسی ادارے سے بڑھ کر امریکہ میں انفرادی ریاستوں اور سٹی کونسلز تک میں مداخلت کر رہا ہے۔
’کالوں کی زندگی اہم ہے‘ جیسا اجتماعی مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے اگر امریکی ریاستوں میں اسرائیلی تشدد کے حربے روک بھی دیے گیے تب بھی اسرائیل، واشگٹن ریاست سے ٹیکساس تک امریکہ کی سلامتی کی ترجیحات متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا کیونکہ براک اوباما کی اسرائیل امریکہ ’ناقابل شکست تعلقات‘ سوچ کے ہر دائرے پر حاوی دکھائی دیتی ہے۔