عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ: کیا الطاف حسین کو لندن میں سزا ممکن؟

ایم کیو ایم رہنما کے ایک دہائی قبل ہونے والے اس قتل سے متعلق پاکستانی عدالت کے فیصلے، برطانوی حکومت اور میٹروپولیٹن پولیس کے ردعمل سے اب ایک انتہائی دلچسپ پہلو سامنے آیا ہے اور کچھ نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔

ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق  کو 16 ستمبر 2010 کی  رات لندن میں قتل کردیا گیا تھا  (تصویر: اے ایف پی)

پانچ سال کے طویل ٹرائل کے بعد اس ماہ کی 18 تاریخ کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی  عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا فیصلہ سنایا۔

ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کی رات لندن میں قتل کردیا گیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان شمیم خالد، محسن علی اور معظم علی کو عمر قید کی سزا سنائی اور تینوں ملزمان کو ڈاکٹر عمران فاروق کے اہل خانہ کو 10، 10 لاکھ روپے ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ اس فیصلے میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین، افتخار حسین، محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے۔

39 صفحات پر مشتمل اس طویل فیصلے میں یہ کہا گیا کہ: 'الطاف حسین اور دیگر سینیئر (ایم کیو ایم) قیادت کے حکم پر عمران فاروق کا قتل ہوا۔'

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ 'پاکستان اور برطانیہ کی حکومتوں سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ مفرور (ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین، رہنما افتخار حسین، محمد انور اور کاشف کامران) کا جلد سے جلد سراغ لگایا جائے گا اور انہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔'

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس سے بذریعہ ای میل رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا لندن میں عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے مزید تحقیقات ہوں گی؟ اور کیا اس کیس کی روشنی میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا؟

تاہم میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان ایڈم فرینچ نے جوابی ای میل میں یہ کہہ کہ کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ: 'ہم حوالگی سے متعلق انفرادی معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ بہتر ہے کہ آپ اس معاملے پر مزید تبصرے کے لیے برطانیہ کے ہوم آفس سے رابطہ کریں۔'

جس روز پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس کیس کا فیصلہ سامنے آیا ہے اسی روز برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد اور برطانوی ڈپٹی ہائی کمیشن کراچی کی جانب سے یہ بیان جاری ہوا کہ 'آج کی کارروائی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیت ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات تکمیل کو پہنچ گئی ہیں۔'

نئے سوالات جنم لینے لگے!

ایک دہائی قبل ہونے والے اس قتل کے فیصلے، برطانوی حکومت اور میٹروپولیٹن پولیس کے ردعمل سے اب ایک انتہائی دلچسپ پہلو سامنے آیا ہے، جس کے بعد کچھ نئے سوالات نے جنم لے لیا ہے۔

کیا متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین پر اس فیصلے کا کوئی اثر پڑے گا؟ کیا انہیں سزا ملے گی؟ اور کیا پاکستانی انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کا اطلاق لندن میں ہوسکتا ہے؟

ان سوالات کے جوابات جاننے سے پہلے یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان نے اس کیس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے اور کس طرح پاکستان نے اس کیس کی تحقیقات میں برطانوی حکومت کی معاونت کی ہے۔

جون 2015 میں جب اس قتل کے مبینہ ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کو چمن سے جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ان کی رہائش سے گرفتار کیا گیا تھا تو سب سے پہلے ان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔ تحقیقات کے بعد اسی سال حکومت پاکستان نے عمران فاروق قتل کیس میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین، ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور، افتخار حسین، معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان اور سید محسن کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس کے بعد پاکستان میں ہونے والی تحقیقات میں ان ملزمان کی جانب سے نہ صرف اعترافی بیانات سامنے آئے بلکہ کئی انکشافات بھی کیے گئے، جن میں سے ایک ملزم خالد شمیم نے یہ بھی قبول کیا تھا کہ 'یہ قتل الطاف حسین کی سالگرہ کا تحفہ تھا۔' مگر ان ملزمان کا اس کیس سے تعلق ثابت کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے کیوں کہ یہ قتل پاکستان میں نہیں لندن میں ہوا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ فروری 2019 میں پاکستان نے برطانیہ سے باہمی قانونی مدد (ایم ایل اے) کی درخواست کی، جبکہ پاکستانی حکام کی جانب سے یہ یقین دہانی کراوئی گئی کہ اس کیس میں سزائے موت عائد نہیں ہوگی، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوانین میں باقاعدہ طور پر ایک عارضی ترمیم بھی گئی تھی۔ یعنی وہ ممالک جہاں سزائے موت ممنوع ہے، وہاں سے ایم ایل اے کے ذریعے پاکستان منتقل کیے جانے والے کیسز پر سزائے موت کا اطلاق نہیں ہوسکے گا۔

برطانوی حکام نے اگست 2019 میں ایم ایل اے کی درخواست قبول کرلی اور محسن علی سید اور محمد کاشف کامران کے خلاف پراسیکیوشن کے لیے پاکستان حکام کی مدد کے لیے اپنی تحقیقات کے ذریعے حاصل کردہ شواہد فراہم کیے۔

اب اس کیس کا فیصلہ آچکا ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفرور اور اشتہاری سیاسی شخصیت بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کو اس فیصلے کی وجہ سے سزا ملے گی یا نہیں؟

قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

اس حوالے سے ہم نے لندن اور پاکستان میں مقیم دو قانونی ماہرین سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

سپریم کورٹ آف انگلینڈ کے وکیل محمد انعام الحق رانا جو لندن کی نجی کمپنی جولیہ اینڈ رانا سولیسیٹرز کے شریک بانی بھی ہیں، نے اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: 'پاکستان میں انسداد دہشت گردی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس کا لندن میں الطاف حسین پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستانی حکومت اس فیصلے کی بنا پر حوالگی یا گرفتاری کی درخواست کر سکتی ہے مگر الطاف حسین کمزور شواہد، جان کو خطرہ اور پاکستان میں سزائے موت کے قانون کو بنیاد بنا کر باآسانی پاکستانی حکومت کی درخواست کو چیلنج کرسکتے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'پاکستانی حکومت اگر چاہے تو سکاٹ لینڈ یارڈ سے تفتیش کی درخواست کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے انہیں مضبوط ثبوت فراہم کرنا ہوں گے جو موجود نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستانی عدالت کے فیصلے کے باوجود بھی پوری صورت حال صرف بیان بازی کی حد تک ٹھیک ہے مگر کچھ بھی ٹھوس نہیں ہے۔'

البتہ سندھ ہائی کورٹ کے وکیل اور برطانیہ کی معزز وکلا سوسائٹی لنکنز ان سے تربیت یافتہ بیرسٹر علی طاہر کی رائے اس حوالے سے مختلف ہے۔ ان کے مطابق: 'اگر برطانیہ میں مقیم کسی شخص کے خلاف کسی اور ملک کی عدالت میں کوئی فیصلہ جاری ہوتا ہے تو وہ برطانیہ میں اس شخص کے مجرمانہ ریکارڈ میں واضح ہوجاتا ہے۔ الطاف حسین کے خلاف پاکستانی انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ برطانیہ کے عدالتی ٹرائل میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال برطانیہ کے زمیرا حاجی ایوا کیس سے لی جاسکتی ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زمیرا حاجی ایوا برطانیہ میں مقیم آذربائیجان کی شہری ہیں۔ وہ آذربائیجان کے بین الاقوامی بینک کے سابق چیئرمین جہانگیر حاجی کی بیوی ہیں، جنہیں مالی جرائم کے الزام میں برطانوی پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا۔

2018  میں برطانیہ کے انسداد بدعنوانی قانون کے تحت ان کا ٹرائل ہوا تھا۔ عدالت میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ زمیرا حاجی نے لندن کے ڈیپارٹمنٹل سٹور ہیروڈس میں 16.3 ملین پاؤنڈ کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر ملٹی ملین پاؤنڈز کی خریداری کی تھی- برطانوی حکام کے مطابق یہ اخراجات ان کے شوہر کی سرکاری تنخواہ سے کہیں زیادہ تھے۔ 30 اکتوبر 2018 کو برطانوی پولیس نے آذربائیجان کی حکومت کی جانب سے کی گئی حوالگی کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا تھا لیکن انہیں آذربائیجان حکومت کےحوالے نہیں کیا گیا تھا۔

ان کے شوہر جہانگیر حاجی پر آذربائیجان میں عوامی فنڈز میں غبن کرنے، دھوکہ دہی اور فنڈز کے ناجائز استعمال کا الزام تھا جس کے تحت 14 اکتوبر 2016 کو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کی ایک عدالت نے انہیں 15 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

بیرسٹر علی طاہر کے مطابق زمیرا حاجی ایوا کیس کے ٹرائل میں بھی ان کے شوہر جہانگیر حاجی پر آذربائیجان کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔ دیگر الزامات اور اس فیصلے کی بنیاد پر ان کے خلاف برطانیہ میں ٹرائل چلا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'البتہ یہ ضرور ہے کہ جب کسی اور ملک کی عدالت میں دیے جانے والے فیصلوں کو برطانیہ کی عدالت میں استعمال کیا جاتا ہے تو قانون کی رُو سے اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کہیں یہ فیصلہ فیئر ٹرائل یا ملزم کے دفاع کے حق میں رکاوٹ تو نہیں بنے گا۔'

بیرسٹر علی طاہر نے کہا: 'جہاں تک الطاف حسین کے کیس کی بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر برطانوی حکومت ان کے خلاف تحقیقات کرنا چاہتی ہے تو پاکستانی انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ اس میں کافی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔'

علی طاہر کا مزید کہنا تھا کہ 'اس بات کو سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ اگر برطانوی حکومت متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرتی ہے تو پاکستانی عدالت کے فیصلے کی بنیاد پر انہیں سزا نہیں دی جاسکتی۔ برطانوی تحقیقاتی اداروں کو ٹھوس ثبوتوں کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے اور انہوں نے اس قتل کا حکم دیا تھا۔ تاہم یہاں یہ اہم ہے کہ کیا برطانوی حکومت الطاف حسین کے خلاف تحقیقات کرنا چاہتی ہے؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ الطاف حسین کئی سال سے برطانیہ کا ایک انٹیلی جنس اثاثہ ہیں۔' 

واضح رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 'اس کیس کے ملزمان مثالی سزا کے قابل ہیں کیوں کہ انہوں نے عالمی برادری کے سامنے مادر وطن کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔'

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان