بھارت کے زیر انتظام لداخ میں کنٹرول لائن پر چین اور بھارت کی افواج کے درمیان ہونے والی خوں ریز جھڑپ کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے لیکن وادی گلوان میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی آنے کے ابھی کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
بھارت نے جنگ کی ممکنہ صورتحال کے پیش نظر جنگی ساز و سامان بشمول توپیں، میزائل، ٹینک اور لڑاکا طیارے سری نگر– لیہہ شاہراہ اور بھارتی فضائیہ کے ہوائی جہازوں کے ذریعے کنٹرول لائن کے نزدیک پہنچانے کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
جہاں ایک طرف چین نے پوری وادی گلوان پر اپنا حق جتا کر بھارت کے لیے مشکل صورتحال پیدا کردی ہے، وہیں دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان کہ 'نہ کوئی ہمارے علاقے میں داخل ہوا نہ ہی کسی چوکی پر قبضہ ہوا' نے نہ صرف چینی دعوے کو مضبوطی بخشی ہے بلکہ بھارتی عوام کو بالعموم اور اپنی فوج کو بالخصوص مخمصے میں ڈال دیا ہے۔
بھارتی فوج نے لداخ میں اپنے ملک کے مختلف حصوں سے دوڑے چلے آنے والے صحافیوں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔ وہ بھارتی صحافی، جنہوں نے کرگل جنگ کی رپورٹنگ بھارتی فوجیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر کی تھی، کو بھی وادی گلوان کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں ملی جن میں سے بعض اب مایوس ہو کر دوبارہ کرونا (کورونا) کی رپورٹنگ کرنے لگے ہیں۔
چین کی وادی گلوان میں دلچسپی
لداخ کے دارالحکومت لیہہ سے تقریباً 220 کلو میٹر دور مشرقی لداخ میں واقع 'وادی گلوان' کشمیری نسل لداخی ایکسپلورر غلام رسول گلوان کے نام سے منسوب ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب مرحوم غلام رسول گلوان کے پوتےغلام نبی گلوان سے چین کی وادی گلوان میں دلچسپی سے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا: 'اس دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہ داری کی سڑک قریب سے گزرتی ہے۔
'سی پیک کی سڑک چین، وادی گلوان کے نزدیک، گلگت بلتستان سے ہوتے ہوئے کراچی تک جائے گی۔ یہاں بھارت نے حال ہی میں وادی گلوان میں دربک سے دولت بیگ اولڈی تک ایک سڑک بنائی اور ایک بڑا پل تعمیر کیا جس سے چین ناخوش ہے۔'
غلام نبی گلوان کے مطابق چین کے دعوے کہ 'پوری وادی گلوان ہماری ہے' میں کوئی صداقت نہیں۔ 'پہلے تو ہماری سرحد چین کے ساتھ لگتی ہی نہیں تھی۔ ہماری سرحد تبت کے ساتھ لگتی تھی۔ لیکن 1950 میں جب چین نے تبت پر اپنا قبضہ جما لیا تو چین بیچ میں آگیا اور سرحد پر مسئلے پیدا ہونے شروع ہوئے۔ اس وقت چین وادی گلوان میں تعمیراتی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔'
وزیر اعظم مودی کے حالیہ بیان سے متعلق پوچھے جانے پر ان کا کہنا تھا: 'میں مودی جی کے بیان پر کیا کہہ سکتا ہوں۔ مجھے تو یہی معلوم ہے کہ سرحد پر بہت کشیدگی ہے۔'
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے نوجوان کشمیری پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر اور کالم نگار وارث الانور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں چین کی وادی گلوان میں دلچسپی سے متعلق غلام نبی گلوان کے بیان کی تائید کی۔
ان کے بقول: 'سی پیک کی سڑک وادی گلوان سے زیادہ دور نہیں۔ بھارت گذشتہ برس سے گلگت بلتستان کو لے کر بہت زیادہ اشتعال انگیزی کررہا ہے۔ چین کے لیے سی پیک بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کو لے کر چین انتہائی محتاط ہے اور اس کی طویل مدتی سکیورٹی یقینی بنانا چاہتا ہے۔ بظاہر کسی بھی ممکنہ خطرے کو ٹالنے کے لیے ہی چین نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔'
وارث الانور کے مطابق چین، جو ایک طاقت ور ملک ہے، کی وادی گلوان میں اچانک ہی دلچسپی بڑھ گئی ہے اور یہاں 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس' والا معاملہ بن گیا ہے۔
'دراصل حقیقی کنٹرول لائن پوری طرح سے فکس نہیں۔ چین کا دعویٰ لداخ کے کئی علاقوں پر ہے۔ وادی گلوان پر تو یہ اپنا حق نہیں جتاتے تھے لیکن اب سینہ ٹھوک کر جتانے لگے ہیں۔ چین میں وادی گلوان کو حاصل کرنے کا دم ہے اور وہ اپنے دم کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔
'بھارت بھی اکسائے چن، پاکستان زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان پر اپنا حق جتا رہا ہے لیکن اس کے پاس یہ علاقے حاصل کرنے کی طاقت نہیں۔ بھارت اپنی کمزوری سے واقف ہے۔ اس کے لیے چین سے مقابلہ کرنا سرار بے وقوفی ہوگی اور وہ یہ غلطی کر بھی نہیں سکتے ہیں۔
'اگر 20 فوجی پاکستان نے مارے ہوتے تو جنگ چھڑ چکی ہوتی، لیکن انہیں پتہ ہے کہ ہم چین کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں۔'
وارث الانور کے مطابق چین کو لداخ اور کشمیر پر کھل کر ہاتھ ڈالنے سے کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن روکتی تھی جس کو بھارت کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے گذشتہ برس پانچ اگست کو منسوخ کر دیا۔
'کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن اس خطے کو عالمی سطح پر قانونی تحفظ فراہم کرتی تھی۔ جب بھارت نے اس کی متنازع حیثیت کو نقصان پہنچایا تو اسے عالمی سطح پر حاصل قانونی تحفظ کو بھی شدید چوٹ پہنچی۔ چین اب عالمی برادری کے سامنے خود کو جواب دہ بھی نہیں سمجھتا۔'
وارث الانور نے بتایا کہ وادی گلوان میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی نئی نہیں ہے، آج فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں انتہائی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 'وادی گلوان کا سٹریٹجک محل وقوع بہت اہم ہے۔ سب سیکٹر نارتھ یا دربوک سے شیوک تک بھارت نے جو سڑک بنائی ہے چین اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔
'وہاں بھارت نے ایک، دو پل بھی بنائے ہیں جن میں سے ایک کا افتتاح گذشتہ برس بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کیا تھا۔'
وارث الانور کے مطابق کچھ سال پہلے پاکستان کے لیے الگ تھلگ کرنے کی بات ہورہی تھی لیکن اس کے برعکس اب ہمیں بھارت الگ تھلگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 'اس وقت ایسا لگتا ہے کہ بھارت الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ نیپال کے بدلے بدلے سے تیور سے واقف ہیں۔ چین اپنے تمام پڑوسی ممالک پاکستان، نیپال، میانمار، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ رشتوں کو مزید مضبوط کرنے میں لگا ہوا ہے۔ بھارت کی نظریں امریکہ پر ہے جو بہت دور ہے۔'
مودی کا بیان اور زمینی صورتحال
1999 کی کرگل جنگ میں حصہ لے کر بھارت کا دوسرا سب سے بڑا فوجی ایوارڈ 'مہا ویر چکر' پانے والے لداخی ریٹائرڈ کرنل سونم وانگچک کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کا یہ کہنا کہ 'چینی فوج وادی گلوان کے اندر داخل نہیں ہوئی ہے' حیران کر دینے والی بات ہے۔
'20 فوجیوں کے بے رحمی سے قتل کے بعد بھی حقیقی کنٹرول لائن پر طرفین کی افواج کے درمیان میجر جنرل سطح کے مذاکرات ہوئے لیکن یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے یا نہیں اس حوالے سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آرہی۔
'وزیر اعظم صاحب کا یہ کہنا کہ چینی فوج نے ہماری زمین ہڑپ لی ہے، نہ کسی چوکی پر قبضہ کیا ہے، یہ اچھمبے کی بات ہے۔ زمینی صورتحال، میڈیا رپورٹس اور مقامی لوگوں کے بیانات کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔'
یہ پوچھے جانے پر کہ میڈیا کو کیوں کر وادی گلوان تک رسائی نہیں دی گئی تو ان کا کہنا تھا: 'میڈیا کو وادی گلوان تک رسائی نہ دینے سے یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ سچائی سامنے آئے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر میڈیا کو اس علاقے میں انٹری نہیں دی گئی ہو۔'
لداخ سے تعلق رکھنے والے مورخ اور کالم نگار عبدالغنی شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ چین پچھلے 50، 60 سال کے دوران بہت اندر آچکا ہے۔ 'دریائے گلوان اور اس کے مضافاتی علاقے لداخ کا حصہ ہیں۔ 1962 کی جنگ میں بھی یہ علاقے بھارت کے پاس تھے۔ جب ملک کے وزیر اعظم کہتے ہوں کہ سب کچھ ٹھیک ہے تو ہم جیسے لوگوں کے لیے بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔'
'لیہہ کا آخری گائوں چوشل ہے۔ وہاں سے حقیقی کنٹرول لائن تک پہنچنے میں دو دن لگتے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ چین بالکل چوشل گاؤں کے نزدیک آچکا ہے۔'
عبدالغنی شیخ نے بتایا کہ ایک زمانے میں وادی گلوان کے نزدیک ایک 45 کلو میٹر طویل چراگاہ تھی وہ بھی چین نے ہڑپ لی ہے۔ 'اس چراگاہ میں 80 ہزار بھیڑ بکریاں چرائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ پانچ، دس ہزار تبتی بیل اور دوسرے مویشی وہاں پر چرائے جاتے تھے۔ یہ چراگاہ جانے سے وہاں کے لوگوں کا کافی نقصان ہوا۔ ایک لداخی ماہر کے مطابق وہاں سالانہ 10 کروڑ روپے مالیت کی گھاس اگتی تھی۔'
وادی گلوان نام کیسے پڑا؟
لداخی مورخ اور کالم نگار عبدالغنی شیخ کے مطابق ساتویں ارل آف ڈنمور چارلس اڈولفس مرے Charles Adolphus Murray نے 1892 میں غلام رسول گلوان نامی لداخی ایکسپلورر سے خوش ہو کر مشرقی لداخ سے گزرنے والے ایک دریا کا نام 'دریائے گلوان' رکھا اور بعد ازاں وہ پورا علاقہ 'وادی گلوان' کے نام سے مشہور ہوا۔
انہوں نے وادی گلوان کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا: 'انیسویں صدی میں روس توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ زار روس کی نظریں پنجاب، لداخ اور کشمیر پر بھی تھیں۔ ادھر برٹش انڈیا کو کافی فکر لاحق ہوئی۔ اس نے بھی اپنی ایکسپیڈیشن ٹیمیں ہر طرف بھیجنا شروع کردیں۔
'برٹش فوج کے ایک افسر اور ایکسپلورر لیفٹیننٹ کرنل سر فرانسس ینگ ہسبینڈ متعدد بار لداخ آئے جن کو یہاں خفیہ اطلاعات حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھیں۔ یہاں لیہہ میں برٹش جوائنٹ کمشنر کا دفتر بھی تھا۔ ینگ ہسبینڈ نے غلام رسول گلوان کے ساتھ مل کر کئی علاقوں کا دورہ کیا۔'
عبدالغنی شیخ کے مطابق 1892 میں ساتویں ارل آف ڈنمور چارلس اڈولفس مرے کی قیادت میں ایک ایکسپیڈیشن ٹیم پامیر بھیجی گئی اور اس ٹیم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ دیکھے کہیں روس کی اس علاقے میں کوئی سرگرمیاں تو نہیں۔
پامیر پہاڑی سلسلہ آج بھی کئی ممالک بشمول چین، پاکستان، افغانستان، بھارت اور روس کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ 'چارلس مرے کی قیادت والی اس ٹیم نے غلام رسول گلوان نامی ایک مقامی لداخی کو بھی مدد کے لیے اپنی ٹیم میں شامل کیا۔ یہ ٹیم دریائے گلوان کے آس پاس تھی کہ اچانک موسم بے حد خراب ہوگیا۔ اس ٹیم کے اراکین ایک ایسی جگہ پھنس گئے تھے جہاں سے انہیں واپس نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
'میں نے چارلس مرے کی کتاب The Pamirs: Being a Narrative of a Year's Expedition on Horseback and on Foot Through Kashmir, Western Tibet, Chinese Tartary, and Russian Central Asia پڑھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ہم بہت پریشان ہوگئے۔ ہمیں موت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آںے لگی۔
'گلوان عمر میں بہت چھوٹا مگر بڑا ہوشیار تھا۔ وہ راستہ ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑا۔ اس نے وادی کو جانے والا ایک راستہ کھوج لیا جو ایک چھوٹے دریا کے کنارے سے گزر رہا تھا۔ وہ دوڑتے دوڑتے واپس چلا آیا اور ارل آف ڈنمور کو بتا دیا۔ جب یہ ایکسپیڈیشن ٹیم وہاں سے بحفاظت باہر نکل آئی تو چارلس مرے بہت خوش ہوئے اور اس دریا کا نام دریائے گلوان رکھا اور پھر پوری وادی 'وادی گلوان' کے نام سے مشہور ہوئی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج بھی دریائے گلوان اکسائے چن سے نکل کر دریائے شیوک میں مل کر وادی نوبرا سے ہوتے ہوئے بالآخر پاکستان میں بہتا ہے۔
مورخ عبدالغنی شیخ کے مطابق غلام رسول گلوان 46 برس کی عمر میں ہی انتقال کر گئے اور انہوں نے اپنی سوانح حیات 'سرونٹ آف صاحبس' میں اپنے سفر کے متعلق کافی معلومات قلم بند کی ہیں۔
'رسول نے ایک امریکی ٹریولر رابرٹ بیریٹ کے ساتھ سفر کے دوران انہیں اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنے سفری کارنامے بتائے۔ رابرٹ نے رسول سے کہا کہ آپ یہ سبھی باتیں لکھ ڈالو۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہی لکھنا شروع کردیا اور 1923 میں ایک کتاب سرونٹ آف صاحبس شائع ہوئی۔'
غلام نبی گلوان کے مطابق ان کے دادا غلام رسول گلوان کی پوری زندگی پہاڑوں کے سفر میں گزری اور وہ لداخ کے بیشتر علاقوں سے واقف تھے۔ 'جب بھی باہر سے کوئی وفد ایکسپیڈیشن یا جاسوسی کے لیے لداخ آتا تھا تو یہاں کے لوگ وفد میں شامل افراد کو تجویز کرتے تھے کہ وہ غلام رسول کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ میرے داد انگریزی زبان بہت کم جانتے تھے لیکن جتنی جانتے تھے وہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ سفر کرتے کرتے سیکھ لی تھی۔'
غلام نبی کا کہنا ہے کہ ان کے دادا کشمیر سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ غلام رسول گلوان کی دادی کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ ایک کشمیری خاتون تھیں۔
اس کے برعکس کشمیر کے نامور مورخ و مصنف محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ غلام رسول گلوان کشمیری تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'غلام رسول گلوان کو انگریز کشمیر سے ہی لداخ اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور پھر ان کا کنبہ وہیں لداخ میں ہی رہائش اختیار کر گیا۔ اُس وقت برٹش انڈیا کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ زار روس لداخ پر حملے کر کے اس کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔'
وہ مزید کہتے ہیں: 'رسول گلوان نے اپنی کتاب ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں لکھی ہے، لیکن وہ کتاب ایک اہم دستاویز ہے۔ رسول گلوان لیہہ میں ہی مدفون ہیں۔ جب میں کشمیر کی کلچرل اکیڈمی کا سکریٹری تھا تو میں لیہہ گیا اور مرحوم گلوان کی قبر پر کتبہ نصب کروایا۔'
کشمیری گلوان اور گلوان پورہ
کشمیری مورخ و مصنف محمد یوسف ٹینگ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں گلوان ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو گھوڑوں کو پالتے تھے یا ان کا کاروبار کرتے تھے۔ 'ایک زمانے میں گھوڑا بادشاہوں سے لے کر عام لوگوں کی سواری کا ذریعہ تھا لیکن اب ان کی جگہ گاڑیوں نے لے لی ہے جس کی وجہ سے گھوڑوں کے ساتھ ساتھ ان کے چلانے والے بھی نایاب ہو رہے ہیں۔'
وسطیٰ کشمیر کے ضلع بڈگام میں ایک بڑی آبادی پر مشتمل ایک گاؤں 'گلوان پورہ' ہے، جو ضلعی ہیڈ کوارٹر سے محض چار کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ گلوان پورہ کے ایک نوجوان ریسرچ سکالر نے ان کے گاؤں کے نام کے بارے میں پوچھے جانے پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہمارے گاؤں کا نام گلوان پورہ ہونے کی دو وجوہات بتائی جارہی ہیں۔ ایک یہ پرانے زمانے میں کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن چکا تھا جن کو گلوان کہتے تھے۔
'دوسرا یہ ہے کہ یہاں وسیع و عریض چراگاہیں تھیں جن میں مختلف اقسام کے پھول اور گھاس اگتی تھی۔ گلوان پورہ دو لفظوں کو مل کر بنا ہے۔ گل یعنیٰ پھول اور ون یعنیٰ جنگل۔ دونوں لفظوں کو ملائیں گے تو پھولوں کا جنگل بنتا ہے۔'
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک مورخ نے بتایا کہ وادی کشمیر میں لگ بھگ ہر گاؤں کے نام کی ایک وجہ تسمیہ ہے۔ 'کسی گاؤں کا اس میں رہنے والے کسی معروف شخصیت پر نام رکھا گیا ہے تو کسی گاؤں کا نام اس گاؤں میں پائی جانے والی مخصوص خصوصیت کی بنا پر پڑ گیا ہے۔
'کئی ایسے دیہات بھی ہیں جن کے نام وہاں سکونت پذیر لوگوں کی ذات پر رکھے گئے ہیں لہٰذا ایسا بھی ممکن ہے کہ گلوان پورہ میں کسی زمانے میں گلوان ذات کے لوگ آباد رہے ہوں جس کی وجہ سے اس کا نام گلوان پورہ پڑ گیا۔'