پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی ائی اے) کا طیارہ 22 مئی کو کراچی کے علاقے ماڈل کالونی کی جس گلی میں کریش ہوا تھا وہاں کے مکان آج بھی رہنے کے قابل نہیں۔
حادثے کو تقریباً ڈیڑھ ماہ گزر جانے کے باوجود ان مکانوں میں بجلی، گیس یا پانی میسر نہیں اور ان کی کھڑکیاں، دروازے اور دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ان گھروں میں ملبہ اور کچرا پڑا ہے اور جلی ہوئی لاشوں کا تعفن اٹھتا رہتا ہے۔
گلی کے متعدد خاندان ان مشکلات کے باعث دوسری جگہوں پر منتقل ہوگئے ہیں۔ ماڈل کالونی، جناح گارڈن کی گلی نمبر دو کے داخلی راستے پر ایک پیلے رنگ کی قنات لگائی گئی ہے، جس کے باہر چار گارڈز تعینات ہیں۔
ان میں سے دو گارڈز پی آئی اے کے ہیں، جنہیں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ آپ کا تعلق میڈیا سے ہے تو وہ آپ کی اگلی بات سنے بغیر ہی اندر جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیتے ہیں اور بار بار یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ 'کہیں آپ کے پاس کیمرہ تو نہیں؟'
کچھ روز قبل پی آئی اے نے اسی گلی کے ایک مکان کی چھت پر بری طرح دھنسے ہوئے جہاز کے 17 میٹر لمبے اور انتہائی وزنی پر کو کرین کی مدد سے اٹھوا لیا تھا جس کے بعد اب طیارے کی کوئی باقیات یہاں موجود نہیں۔ اس کے باجود گلی میں داخل ہونا انتہائی مشکل عمل ہے۔
گلی میں داخل ہونا تو دور کی بات میڈیا نمائندوں کو قنات کے قریب تک جانے نہیں دیا جاتا۔ اگر وہ کسی طرح داخل ہو بھی جائیں کو متاثرہ گھروں کی جانب بڑھنے نہیں دیا جاتا۔
اتنی احتیاط اور روک ٹوک کی وجہ سے نہ صرف تجسس پیدا ہوتا ہے بلکہ ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخر گلی کے داخلی راستے پر قنات لگا کر دنیا سے کیا چھپایا جارہا ہے؟ گلی میں جانا کیوں ممنوع ہے؟ کیمرے کا خوف کیوں ہے؟ اور کیا اگلے کئی ماہ تک یہ گھر اسی حالت میں رہیں گے؟
گلی کے رہائشی عبدالرافع، جن کے گھر کے عین دروازے پر پی آئی اے کا جہاز کریش ہوا تھا اور اس کے برآمدے میں بیٹھی گھروں میں کام کرنے والی تین لڑکیاں بری طرح جھلس گئی تھیں، ان کے گھر کی حالت اب کسی کھنڈر سے کم نہیں۔
19 سالہ عبدالرافع کے گھر میں 16 افراد رہتے ہیں۔ انہوں نے حادثے کے دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جس دن جہاز کریش ہوا انہیں ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی اور ایسا لگا جیسے زلزلہ آیا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ جہاز تباہ ہونے کے بعد ان کے گھر میں آگ کے شعلے اور سیاہ دھواں آنا شروع ہوگیا۔ اس وقت گھر کے تمام افراد، جن میں پانچ چھوٹے بچے اور ایک معذور دادی بھی شامل تھیں فوری طور پر گھر کے پیچھے والے ایک کمرے میں جمع ہوگئے جہاں ان کے ساتھ وہ تین جھلسی ہوئی لڑکیاں بھی تھیں۔
عبدالرافع کے مطابق اس کمرے میں 16 افراد تقریباً 16 گھنٹوں تک پھنسے رہے اور ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔اس کمرے میں ایک چھوٹا سا روشن دان سانس لینے کا واحد ذریعہ تھا کیوں کہ کمرے کے باہر صرف کالا دھواں تھا۔ اس روشن دان سے ہی ان لڑکیوں کی لاشوں کو ریسکیو بھی کیا گیا۔
ان کے گھر کے برآمدے کے ساتھ والے ایک بڑے کمرے میں جلی ہوئی لاشوں کو رکھا گیا تھا جہاں وہ کئی گھنٹوں تک پڑی رہیں۔ یہاں تک کہ آج بھی ان کے کچھ ٹکڑے اور کالے دھبےاس کمرے کی زمین پر موجود ہیں۔
عبدالرافع کے گھر کا جلا ہوا دروازہ
عبدالرافع کے مطابق جب انہیں اور ان کے خاندان کو ریسکیو کرلیا گیا تو اگلے دو دن تک ان کا گھر رینجرز کی تحویل میں رہا۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد جب وہ اپنے گھر لوٹے تو ان کے گھر کی دیواریں سیاہ ہو چکی تھیں اور شدید تعفن اٹھ رہا تھا۔
'گھر کا کافی سامان غائب یا تباہ ہوگیا تھا۔ ہمارے گھر میں کالا دھواں اور آگ کے شعلے اندر تک گئے تھے جس کے باعث دیوایں کمزور ہوگئی ہیں۔ گھر کا مرکزی گیٹ کھولیں تو پوری دیوار ہلتی ہے۔ آپ بتائیں کیا ایسی حالت میں کوئی یہاں رہ سکتا ہے؟'
عبدالرافع کی والدہ انیلا اظہر نے، جو اب ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ گھر کا بقیہ سامان شفٹ کرنے کے لیے روزانہ کئی چکر لگا رہی ہیں، انڈپینڈنٹ ارو کو بتایا: 'ہماری زندگی مفلوج ہوگئی ہے، ہمارے رابطے ختم ہوگئے ہیں، ہمارا گھر تباہ ہوگیا ہے، ہم دربدر ہوگئے ہیں۔ اس حادثے میں جن لوگوں کا جانی نقصان ہوا تھا لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی متاثر ہوئے ۔ کیا کسی کو خبر بھی ہے کہ ہم کس حالت میں ہیں؟'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: 'پی آئی اے نے ہمیں گھر کی مرمت کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا لیکن اتنے عرصے تک ہم کیسے گزارا کریں گے۔ ہماری ایک گاڑی اور تین موٹر سائیکلیں بھی تباہ ہوگئی تھیں۔ پی آئی اے ہمیں کچھ پیسے دے کر سمجھ رہا ہے کہ معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اب ہمیں ایک نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرنی پڑ رہی ہے۔'
متاثرہ گھر میں تین خاندان رہائش پزیر تھے جنہوں نے اب علیحدہ علیحدہ کرائے پر مکان لیے ہیں۔ انیلا کے مطابق پی آئی اے نے انہیں چھ ماہ کے لیے تین لاکھ کے قریب پیسے دیے جو ماہانہ 50 ہزار روپے بنتے ہیں۔ تاہم ان کے گھر میں ایک نہیں تین خاندان مقیم تھے، اس حساب سے یہ رقم انتہائی قلیل ہے کیوں کہ کراچی میں کرائے کا مکان لینے کے لیے 11 مہینے کا ایڈوانس بھی دینا پڑتا ہے جو انہیں تین الگ الگ گھروں کا دینا ہوگا۔
عبدالرافع نے بتایا کہ 'اس حوالے سے ہم نے جب پی آئی اے فنانس ڈپارٹمنٹ کے جنرل مینیجر سے درخواست کی تو ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے معاوضے کی رقم دینا ان کی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں اور وہ اگر اتنی رقم بھی دے رہے ہیں تو یہ پی آئی اے والوں کا ان پر احسان ہے۔'
طیارہ حادثے سے متاثر ہونے والا ایک مکان جو رہنے کے قابل نہیں رہا
عبدالرافع کی والدہ کے مطابق ان کے خاندان کے ہر فرد کی زندگی تب تک معمول پر نہیں آسکتی جب تک وہ واپس اپنے گھر میں شفٹ نہ ہوجائیں۔ مگر اس حوالے انہیں یہ نہیں معلوم کہ پی آئی اے ان کے نقصان کا ازالہ کب کرے گا اور کیا ان کے گھر کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا یا گھر کی تعمیر کے لیے بھی انہیں رقم دی جائے گی۔
اس حوالے سے ہم نے جب پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اس معاملے کی اچھی طرح خبر ہے اور ہم نے متاثرین کو چھ ماہ کے کرائے کی رقم بھی فراہم کی ہے البتہ گھروں کی مرمت کے معاملے پر ہماری سروے ٹیم نے تمام متاثرہ گھروں کا سروے کیا ہے اور ہم تین سے چار ماہ میں ان گھروں کو نئے سرے سے تعمیر کروائیں گے۔'
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ پی آئی اے کی جانب سے متاثرہ گلی میں میڈیا کے جانے پر پابندی کیوں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اسے 'ڈیزاسٹر ٹورازم سپاٹ' یعنیٰ تباہ حال سیاحتی مقام نہیں بنانا چاہتے۔'