فلسطین میں سیاسی حریف الفتح اور حماس مغربی کنارے کے الحاق سے متعلق اسرائیلی منصوبے کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔
فلسطینی حریف جماعتوں نے اس غیر معمولی اتحاد کا اعلان جمعرات کو ایک مشترکہ کانفرنس کے دوران کیا جب کہ اسرائیل کے اس توسیع پسند منصوبے پر تل ابیب اور واشنگٹن کے مابین اختلافات کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔
مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کرنے والی جماعت الفتح اور غزہ کی پٹی میں اقتدار پر قابض حماس کے درمیان تعلقات ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے تفرقہ کے شکار ہیں۔
رام اللہ میں ہونے والی پریس کانفرنس میں دونوں جماعتوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازع امن منصوبے کی مشترکہ مخالفت کا بھی اعلان کیا جس کے تحت اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں اور وہاں قائم کی گئیں یہودی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الفتح کے سینیئر عہدے دار جبریل الرجوب نے کہا کہ ’ہم (اسرائیلی) توسیع پسندی کے خلاف کوششوں میں قومی اتحاد کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ آج ہم ایک ہی آواز میں بات کرنا چاہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیروت سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے حماس کے رہمنا صالح العاروری نے کہا کہ یہ اتحاد اس انتہائی خطرناک صورت حال میں ایک اہم موقع ہے اور یہ ہمارے لوگوں کے لیے سٹریٹجک طور پر ایک خدمت ثابت ہوگی۔
لیکن فلسطینی اتھارٹی کے سابق عہدیدار اور تجزیہ کار غسان خطیب کے مطابق یکجہتی کے اس مظاہرے کے باوجود ان دونوں فلسطینی گروپوں کے مابین وسیع تر تعاون کا امکان نہیں ہے۔
خطیب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے شک ہے کہ اسرائیلی توسیع پسندی کا چیلنج ان دونوں دھڑوں کو اپنی تقسیم کو ختم کرنے اور دوبارہ متحد ہونے میں مدد دے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہونے والا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اس کی اہمیت اور اس کے خلاف کوششوں کو مربوط کرنے کی ضرورت پر اتفاق کریں گے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس سے آگے بڑھ پائیں گے۔‘