لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔
چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ محمد قاسم خان کی زیر صدارت انتظامی کمیٹی نے جمعے کو ارشد ملک کو برطرف کرنے کی باقاعدہ منظوری دی۔
انتظامی کمیٹی کے اجلاس میں سات سینیئر ججز نے شرکت کی جن میں لاہور ہائی کورٹ کے سنئیر ترین جج جسٹس محمد امیر بھٹی، جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان جسٹس عائشہ اے ملک ، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔
جج کو ہٹانے کا معاملہ:
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سنائی تھی۔
گذشتہ سال چھ جولائی کو مریم نواز نے پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی ایک مبینہ ویڈیو لیک کی تھی جس میں وہ ناصر بٹ نامی شخص سے گفتگو میں کہتے سنے گئے کہ میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ میرٹ کی بجائے دباؤ پر ہوا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے متنازع ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد 22 اگست 2019 کو احتساب عدالت کے جج کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارش پر جج ارشد ملک پر عائد الزامات پر محکمانہ کارروائی کی گئی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے جسٹس سردار احمد نعیم کو جج ارشد ملک کے خلاف محکمانہ انکوائری کی ہدایت کی تھی۔
اسی انکوائری رپورٹ پر جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جج ارشد ملک کی برطرفی پر رد عمل:
مسلم لیگ ن کی جانب سے اس معاملہ پر پہلے بھی کافی بیان بازی کی جاتی رہی ہے، خاص طور پر جب اس معاملہ کی تحقیقات ایف آئی اے نے شروع کیں۔
ن لیگی رہنماؤں کو طلب کیا جاتا رہا اور مسلم لیگ ن کے دفتر ماڈل ٹاؤن پر ایف آئی اے نے چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضہ میں لیا تھا۔
اب اس فیصلہ کے بعد ایک بار پھر معاملہ سوشل میڈیا سمیت شہریوں میں موضوع بحث بن گیا ہے۔
سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اس فیصلے کے بعد اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’آج کا فیصلہ بے شک سچ کی فتح اور جھوٹ کی شکست ہے۔ اس فیصلے نے نواز شریف پر ہی نہیں،عدل و انصاف کے دامن پر لگا ایک بڑا داغ دھویا ہے۔ الّلہ کا بے انتہا شکر جس کے ہاں نا دیر ہے نا اندھیر۔ اب عدلیہ کے وقار اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ داغدار جج کے داغدار فیصلوں کو بھی پھاڑ پھینکا جائے۔‘
انصاف کبھی ادھورا نہیں ہوتا۔ مکمل انصاف کا تقاضہ ہے کہ جس طرح جج کو برطرف کیا گیا ہے اسی طرح اس کے بدعنوان فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) July 3, 2020
’تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے مقبول ترین سیاست دان کی بے گناہی پر وقت کا فیصلہ آ گیا ہے۔ سات محترم جج صاحبان نے جج کی برطرفی کے ذریعے واضح کر دیا ہے کہ نوازشریف کو کس طرح سزائیں دی گئیں۔‘
مریم نواز کی اس ٹویٹ پر وزیراعظم عمران خان نے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’محترمہ اس منطق سے تو فلیگ شپ ریفرینس میں آپ کے والد کی بریت کو سزا میں بدلنا ہو گا کیونکہ اسی ارشد ملک نے نواز شریف کو بری کیا تھا۔‘
انہوں ٹویٹ میں لکھا کہ ’اسی لیے کہتے ہیں اچھے وکیلوں سے مشورہ کر لیا کریں پاناما کیس میں بھی آپ نے مٹھائی غلط اور جلدی کھا لی تھی۔‘
محترمہ اس منطق سے تو فلیگ شپ ریفرینس میں آپ کے والد کی بریت کو سزا میں بدلنا ہو گا کیونکہ اسی ارشد ملک نے نواز شریف کو بری کیا تھا اسی لیے کہتے ہیں اچھے وکیلوں سے مشورہ کر لیا کریں پاناما کیس میں بھی آپ نے مٹھائی غلط اور جلدی کھا لی تھی @PTIofficial https://t.co/pI3cGrg5LS
— Mirza Shahzad Akbar (@ShazadAkbar) July 3, 2020
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’جج ارشد ملک کی برطرفی کے لاہورہائی کورٹ کے سات جج صاحبان کے فیصلے پر اظہار تشکر کرتے ہیں۔
’اللہ کے حضور سربسجود ہوں کہ اس نے ملک وقوم کی مخلصانہ خدمت کرنے والے محمد نوازشریف کی بے گناہی کو ثابت کردیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو برطرف کر دیا۔ انہیں میاں نواز شریف کیس کی سماعت کے دوران مس کنڈکٹ کا الزام ثابت ہونے پر برطرف کیا گیا ہے۔ کیا اب میاں نواز شریف کے خلاف اس جج کے فیصلوں کی کوئی اہمیت رہ گئی ہے اور کیا یہ فیصلے اب فوری کالعدم قرار نہیں ہو جانے چاہئیں؟‘
جج کی برطرفی کے بعد فیصلہ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
سینیئر قانون دان اکرم شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جج ارشد ملک کو فیصلہ دباؤ میں کرنے کی بنیاد پر برطرف کیا گیا ہے تو ان کا نواز شریف کے خلاف دیا گیا فیصلہ بھی برقرار نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی جج پر پیشہ ورانہ کسی تکینیکی غلطی کا الزام ہوتا ہے اور ان کےخلاف کارروائی ہوتی ہے تو اس صورت میں فیصلوں پر اثر نہیں پڑتا۔
انہوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان تجربہ چیلنج کیا گیا تھا اس لیے ان کے فیصلے برقرار رہے۔
ان کے خیال میں یہاں ویڈیو سکینڈل سے لے کر کارروائی تک ارشد ملک پر الزام تھا کہ انہوں نے تسلیم کیا کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دباؤ کے تحت دیا۔
’ایسی صورت میں اب ن لیگ یہ درخواست کر سکتی ہے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا جائے۔‘