عمر رفتہ کو آواز دیتے ہوئے بہت پیچھے کی طرف لوٹ جاتا ہوں۔
یہ لگ بھگ تین عشرے پرانی بات ہے، میں پشاور سے انٹر کر کے اسلام آباد آیا اور بی اے میں داخلہ لیا تو یہاں کی فضا مجھ جیسے دیہاتی نوجوان کے لیے قدرے نامانوس اور اجنبی سی تھی، لیکن اپنے مخصوص سیاسی خیالات اور لکھنے پڑھنے کے رجحان نے میری شرماہٹ اور تنہائی کو تیزی کے ساتھ پیچھے دھکیلا اوراس میں سیاسی اور ادبی خیالات رکھنے والے بہت اچھے دوستوں کا رنگ بھرنا شروع کیا۔
تب کیا معلوم تھا کہ ابصار عالم ایک دبنگ صحافی بن کر ابھریں گے۔ متین حیدر حساس منطقوں کی خبر نویسی میں نام بنائے گا۔ اجمل اعجاز، اکرام کوکی خیل، مطہر زیب، صدیق خان، عامر خورشید رضوی، حمیداللہ آفریدی اور فاروق حسن وغیرہ اپنے اپنے کام اور نام کے ساتھ زندہ رہیں گے۔
ان میں سب سے دلچسپ کردار کا اضافہ تب ہوا جب کلاسز شروع ہونے کے چند دنوں بعد چست پینٹ پہنے گھنگریالے بالوں والا ایک نوجوان پروفیسر فاروق شیخ کے انگریزی لیکچر کے دوران ہی اچانک داخل ہوا اور بغیر پوچھے ایک دیوانگی بھرے اعتماد کے ساتھ اپنا تعارف کرانے لگا۔ سب لڑکے ایک دوسرے کو دیکھ کر اس کے اعتماد بلکہ دیوانگی پر مسکرائے۔
تعارف کے بعد پروفیسر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ میرے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا اور پہلے ہی دن پہلے ہی لیکچر میں پروفیسر فاروق شیخ جیسے مایہ ناز انگریزی دان کے ساتھ بحث کرنے لگا گویا چند منٹ کے اندر اندر اس نے اپنے بارے میں سب پر دو باتیں واضح کردیں۔ ایک یہ کہ وہ بولڈ بہت ہے اور دوسرا یہ کہ وہ قابل ہے، تاہم اس کی تیسری خوبی کو سمجھنے میں ذرا دیر لگنی تھی کہ وہ ایماندار بھی بہت ہے۔
یہ نوجوان بعد میں صحافت کے افق پر ابھرا تو خلقت نے اسے مطیع اللہ جان کے نام سے جانا۔ آغاز صحافت میں وہ ایک انگریزی روزنامے سے وابستہ ہوا تو اس کا دلیر پن مصلحت کی عبا اوڑھنے کی بجائے فرزانگی کی طرف بڑھا۔ وہ بیک وقت قابل نفرت اور قابل داد صحافی بنتا گیا تاہم اس کے لیے نفرت اور داد کا جذبہ رکھنے والے طبقے الگ الگ تھے۔
چونکہ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فوجی افسر کا بیٹا بھی تھا، اس لیے تاک جھانک اور فارورڈنس اس کی سرشت میں شامل ہے۔ منافقت کے کسی ٹیلے یا دھونس دھمکی کی کوئی لہر اس کے ان طاقتور نفسیاتی حوالوں کو پسپا کرنے میں ناکامی کے سوا کچھ بھی حاصل کر نہیں پا رہا۔
زیادہ سے زیادہ اس کا رزق چھین لیا جاتا ہے لیکن اب وہ اس دربدری کا عادی ہو چکا ہے کیونکہ عین نوجوانی میں اس کی سرکشی نے اسے وہاں ٹکنے نہ دیا، جہاں سے کمیشنڈ آفیسر کی حیثیت سے ایک شاندار کیرئیر اس کا شاید منتظر تھا۔
پھر اخبارات سے اخراج، عدالتی کارروائی، اکلوتی گاڑی کا چکنا چور ہونا اور پھر ایک اہم میڈیا ہاؤس سے فراغت اور پروگرام کی بندش !
لیکن اس پاگل کو میں بہت دیر سے اور بہت قریب سے جانتا ہوں۔ وہ کوئی دوسرا مورچہ پکڑ تا ہے اور اپنی زبان کو توپ اور قلم کو تفنگ بنا د یتا ہے۔ پہلے اس نے کب کسی کی بات مانی ہے اور کب پسپائی اختیار کی ہے جو اب ایسا کرے گا۔
ایک بار اہل خانہ سمیت میرے گھر پشاور آئے تو باتوں باتوں میں میں نے اسے ’مفید مشورے‘ دیتے ہوئے ہاتھ ہولا رکھنے کو کہا تو اس نے اپنے مخصوص لفظ ڈیئر کو استعمال کرتے ہوئے الٹا مجھ سے سوال پوچھا کہ ڈیئر تمھارا مطلب ہے کہ جھوٹ بولنا اور لکھنا شروع کروں؟
میں نے غصے سے کہا نہیں اپنے بچوں کے رزق پر رحم کھانا شروع کرو تو اس کا توانا قہقہہ گونجا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
ایک اہم ٹی وی چینل پر اس کا ٹاک شو ’اپنا اپنا گریبان‘ شروع ہوا تو کہا میرا پروگرام دیکھتے رہنا اور فیڈ بیک دیتے رہنا۔ میں نے جھٹ سے کہا نہ پروگرام دیکھوں گا نہ فیڈ بیک دوں گا۔
پوچھا کیوں؟
میں خود کو اس ٹاک شو کا عادی کیوں بناؤں جبکہ مجھے معلوم ہے کہ تمھاری سرکشی کی وجہ سے اسے جلد بند ہونا ہی ہے اور فیڈ بیک کیوں دوں جب تم پر کسی کے مشورے اور بات کا اثر ہوتا ہی نہیں۔
میرے لہجے میں تلخی دیکھ کر اس نے کہا تمھاری کافی میں چینی زیادہ ڈال دی ہے تاکہ تھوڑی مٹھاس بھی آ جائے۔
اس کا معروف پروگرام جو لوگ دیکھتے رہے، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کے موضوعات اور سوالات لگے بندھے ہرگز نہ تھے بلکہ کبھی کبھی تو وہ ’سرخ لکیر‘ کو نہ صرف کراس کرتا بلکہ اس لکیر کو روند کر گزر بھی جاتا۔ ایسا تصور بھی کمزور دل صحافیوں کے رونگھٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ وہ اپنے مخاطب کو ہمیشہ اپنے مخصوص مہارت سے گھیر کر اس سے خطرناک سچ بھی اگلوانے کا ہنر جانتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا بےباک تجزیہ ایک طرف سونے پر سہاگے کا تو دوسری طرف آگ پر تیل ڈالنے کا کام برابر کرتا رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مطیع اللہ جان کے ان ’خطرناک جرائم‘ نے اسے ہمیشہ ایک ’خطرناک مجرم‘ بنائے رکھا۔ اس کے ٹاک شو پر پابندی لگا دی گئی تو میری اس سے فون پر بات ہوئی تو پوچھا کیا ہوا؟
’کیا ہوا بس نکال دیا مجھے کیونکہ جو کنٹریکٹ میں نے اس ادارے کے ساتھ سائن کیا تھا اس کی رُو سے ادارے کو یہ اختیار حاصل ہے۔ میں دوسروں کی طرح یہ تھوڑی کہوں گا کہ میں نے استعفیٰ دیا۔‘
مطیع اللہ جان ملک بھر میں آج ایک بار پھر اپنی حق گوئی اور دلیری کے ساتھ منظر پر چھائے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے تھے۔ اس کے دوستوں اور بہی خواہوں کو پسینہ آنے لگا ہے لیکن وہ اپنے مخصوص ’پاگل پن‘ کے ساتھ سارا دن سپریم کورٹ کے برآمدوں میں ایک شان بے نیازی کے ساتھ پھرتا رہا اور صحافت کی گردن جھکانے سے بچانے کی جنگ لڑتا رہا۔
یہ ہے وہ منفرد صحافی جس نے اپنے پاگل پن کے ذریعے اپنے پیشے کو ایک اعتبار اور وقار بخشا۔ یہ الگ بات ہے کہ خود کو ہمیشہ اذیتوں سے دوچار رکھا۔
سوچتا رہا کہ جو شخص ایک جنوں خیز لیکن مقدس دیوانگی کے ساتھ اپنی حق گوئی کو اپنی طاقت بنا بیٹھا ہے اسے کون سمجھائے کہ جن منطقوں سے ہمیں واسطہ پڑا ہے وہاں عافیت اسی میں ہے کہ نظر بچا کر اور سر جھکا کر چلا جائے ورنہ قلم تو دور کی بات ہے اپنے بچوں کا رزق تک بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ سرکش مطیع اللہ جان کو نہ خود اس بات کی سمجھ آئے گی، نہ کوئی دوسرا اسے سمجھا سکے گا۔ کم از کم میں نے تو اس معاملے میں مدت ہوئی کہ اس کے سامنے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں۔