جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ فیصلے پر نظرثانی کر کے عبوری حکم کو ختم کرے۔
نظرثانی کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک عدالتی فیصلے پر عملدرآمد روک دیا جائے اور عبوری حکم دیے جانے سے پہلے کیس سے متعلقہ زیر التوا متفرق درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
دس صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا کہ مختصر فیصلے کے بعد چیئرمین ایف بی آر کی تبدیلی کر کے حکومت نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔
درخواست کے مطابق: ’چیئرمین ایف بی آر کی تبدیلی اپنے من پسند نتائج کے حصول کی ایک کوشش ہے جبکہ ایف بی آر کی جانب سے درخواست گزار کی رہائش گاہ کے باہر نوٹس چسپاں کرنا بدنیتی پر مبنی ہے۔ یہ نوٹس چسپاں کرنے کا بنیادی مقصد میری اور اہل خانہ کی تضحیک کرنے کے مترادف ہے۔‘
درخواست قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دائر کی ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار تھا جس میں تاخیر کی گئی۔
اس میں کہا گیا ہے: ’نظر ثانی درخواست داخل کرنے کی مدت گزر نہ جائے اس لیے درخواست دائر کی جا رہی ہے اور مزید اضافی دستاویزات جمع کروانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔‘
درخواست میں جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر نے ’میرے اہل خانہ کے خلاف کارروائی تفصیلی فیصلے سے پہلے ہی شروع کر دی ہے۔ عبوری فیصلے میں حقائق اور دائرہ اختیار سے متعلق مواد کے حوالے سے سقم موجود ہیں۔‘
’بہت سے معاملات میں مجھے اور میرے اہل خانہ کو سنا ہی نہیں گیا۔ حتیٰ کہ اٹارنی جنرل اور ایف بی آر کو بھی نہیں سنا گیا۔ سپریم کورٹ کے عبوری حکم میں آرٹیکل 4، 10اے، 24، 175/2 اور 184/3 سمیت دیگر آرٹیکل کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریفرنس کالعدم ہونے کے بعد ایف بی آر کو تحقیقات کے لیے کہنا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔ ایف بی آر کو سپریم جوڈیشل کونسل میں رپورٹ جمع کرانے کے احکامات بھی بلاجواز ہیں۔
درخواست کے مطابق: ’ایف بی آر کو اس معاملے میں ہدایات دینا ایگزیکٹو کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔‘
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فروغ نسیم نے اب تک اپنے دلائل دو حصوں میں تحریری طور پر جمع کرائے ہیں لہذا انہیں بھی حکومتی تحریری دلائل پر جواب جمع کرانے کا موقع دیا جائے۔
واضح رہے کہ رواں برس 19 جون کو سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر درخواست، جو صدارتی ریفرنس کے خلاف تھی، کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے صدارتی ریفرنس خارج کرنے کا حکم دیا تھا اور ایف بی آر کو ٹیکس معاملات سے متعلق تحقیقات کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
عبوری فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر میں 14 دستاویزات بھی جمع کروائی ہیں۔
دستاویزات میں 2019-2018 کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لندن جائیدادوں کی خریداری، رقوم کی بیرون ملک منتقلی سمیت منی ٹریل کی دستاویزات اور ریکارڈ جمع کروا دیا گیا ہے۔