کچھ دن پہلے ذہنی صحت کے حوالے سے ایک بلاگ لکھا تھا، فیس بک پر شئیر کیا۔ تھوڑی دیر میں میسنجر پر ایک پیغام موصول ہوا۔
’کچھ ان لوگوں کے بارے میں بھی لکھو جو ایسے مریضوں کے ساتھ اپنی زندگی گزار دیتے ہیں، ان کے مسائل پر بھی بات ہونی چاہیے، جن حالات سے وہ گزرتے ہیں، اس کا بھی کوئی ذکر کرے۔‘ یہ میری پرانی ساتھی ہیں جو ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رہتی تھیں۔
’ٹھیک ہے، ممکن ہو تو آپ اپنے تجربات سے آگاہ کریں، میں لکھ دوں گی،‘ میں نے ہامی بھر لی۔
دو دن بعد ان کی طرف سے یہ جوابی تحریر ملی:
’جن لوگوں کے گھر کا کوئی فرد نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو، انہیں بھی دراصل اتنی ہی اذیت کا سامنا ہوتا ہے جس قدر مریض کو، یا پھر شاید اس سے بھی زیادہ۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کیونکہ میرے شریک حیات بھی ذہنی مسائل میں الجھے ہوئے ایسے ہی ایک مریض ہیں۔‘
’شادی سے پہلے نہ تو مجھے اس حقیقت کا علم تھا، نہ خود انہیں اندازہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ میں نے ان کے رویے میں مایوسی، بیزاری اور چڑچڑا پن محسوس کیا۔ خاندان کے دیگر افراد کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں تھا اور ان میں بھی یہی سارے رویے موجود تھے۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ شاید یہ موروثی نفسیاتی بیماری ہے جس کا اثر ان تمام بھائی بہنوں میں ہے۔‘
’شادی کے تین سال بعد، میں نے بالآخر اپنے شوہر سے بات کی کہ ہمیں ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس وقت مجھے خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا جب وہ پہلی دفعہ میں ہی مان گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ علاج شروع ہوا اور دس سالوں کا ایک طویل سفر گزرا جو ہرگز آسان نہیں۔ کاؤنسلنگ کے مستقل سیشن، اس بات کی یقین دہانی کرنا کہ مریض وقت پر اپنی دوائیں لے، جب وہ بہتر محسوس نہ کرے تو جذباتی طور پر اسے اپنے ساتھ کا یقین دلانا، بار بار اس کے بدلتے موڈ کو برداشت کرنا اور ان سب کے ساتھ اپنے بڑے بیٹے کو بھی والد کی اس کیفیت سے آگاہ کرنا اور سمجھانا، یہ سب یقیناً آسان نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مگرصبر کا پھل اس صورت میں مل رہا ہے کہ اب میرے شوہر کی ذہنی صحت پہلے سے بہتر ہے۔ طویل عرصے تک علاج کے باوجود وہ اب بھی ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں مگر اب صورت حال کچھ بہتر یوں ہوئی ہے کہ ڈپریشن کی یہ کیفیت ایک یا دو دن تک رہتی ہے۔ مگر یقین کریں، ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک یا دو دن نہیں بلکہ ایک یا دو سال ہیں۔ ہمارے کیس میں ٹیکنالوجی نے ساتھ دیا، جب میں ان سے ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر میسج کے ذریعے بات کرتی ہوں یا سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو میرے لکھے ہوئے لفظوں کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے، میں نہیں جانتی کہ ایسا کیوں ہے۔ میرے شوہر نے اپنا علاج کروانے کے بعد اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی ماہر نفسیات سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اور آج یہ سب لوگ زیر علاج ہیں اور پہلے کی نسبت ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔‘
’سچ بات تو یہ ہے کہ ان سب حالات میں اکثر میں بھی ڈپریس ہو جاتی ہوں۔ مگر ہر دفعہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے اندر کوئی طاقت مجھے حوصلہ دے رہی ہے، تاکہ میں ہمت ہار کر حالات سے منہ نہ موڑ لوں۔ میری جدوجہد اب بھی جاری ہے۔ اکثر جب میں اپنے شوہر کی شخصیت میں مثبت تبدیلی دیکھتی ہوں تو دل ہی دل میں خود پر فخر کرتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ خدا مجھے مزید توفیق دے کہ میں ہم سب کی زندگیوں میں بہتری لا سکوں۔‘
یہ تحریر پڑھ کر مجھے سیما جین یاد آ گئیں۔ بالی وڈ کے اداکار عامر خان نے چند سالوں قبل ’ستیا میوجیتے‘ نامی پروگرام کی میزبانی کی تھی جس میں سماجی مسائل زیر بحث لائے جاتے تھے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے بھی ایک پروگرام کیا گیا تھا جس میں سیما جین نامی خاتون شریک ہوئیں۔ سیما کی بہن شیزوفرینیا کی مریض تھیں اور وہ تن تنہا 18سالوں سے اپنی بہن کی دیکھ بھال کر رہی ہیں جس سے ان کی اپنی زندگی شدید متاثر ہوئی۔ سیما نے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’کوئی ہمارے ساتھ نہیں، نہ رشتے دار، مجھے لگتا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے کوئی بھی بیمار کے خاندان والوں سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔ آپ کا پورا خاندان سماج سے کٹ جاتا ہے۔ میں یہاں بیٹھے ڈاکٹروں سے بھی سوال کرتی ہوں، آپ دوائی لکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ آپ کا کام ہو گیا۔ ہمارے لیے کوئی کاؤنسلنگ نہیں، میں کیوں سہہ رہی ہوں، کس لیے؟‘
’میرے دماغ میں ہر وقت یہی چلتا ہے کہ صبح سے شام تک میں پورا دن کیسے گزاروں۔ رات تو پھر نکل جائے گی۔ ہر روز مرتے ہیں، ہر صبح زندہ ہوتے ہیں۔ ہم خود ہی گرتے رہے، ہم خود ہی سنبھلتے رہے۔ میں تھک گئی ہوں۔ میری برداشت کی حد پار ہو چکی ہے۔ کیا میری زندگی قیمتی نہیں ہے، کیا میں ایسے ہی اپنی زندگی گزاروں گی۔ میرے لیے ڈاکٹر، حکومت، سماج کے پاس کوئی سپورٹ سسٹم کیوں نہیں ہے؟‘
سیما جین نے بہت دکھی دل سے سوال اٹھائے مگر حاضرین میں سے کسی کے پاس ان کے سوالوں کا جواب نہیں تھا۔
اور میں یہ سوچ رہی ہوں کہ ابھی تو ہم نے ٹھیک سے مریضوں کے بارے میں بات کرنی بھی شروع نہیں کی، تیمارداروں کا کون سوچے گا؟
ابراہم لنکن، لیڈی ڈیانا، ڈپیکا پادوکون، پروین بوبی اور کئی مشہور شخصیات کی دماغی حالت اور اس سے نمٹنے کی جدوجہد کے بارے میں ہم سنتے، پڑھتے اوردیکھتے ہیں (اور یقیناً اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت بھی ہے) مگر ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہنے والوں پر کیا گزری اور انہوں نے اس مشکل وقت کا مقابلہ کیسے کیا؟