پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے کرکٹ میچز طرح طرح کے تنازعات کی ایک تاریخ رکھتے ہیں جن میں کھلاڑیوں پر الزامات، امپائز سے جھگڑوں، بال ٹیمپرنگ، میچوں کی منسوخی اور سپاٹ فکسنگ جیسے سکینڈلز شامل ہیں۔ جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بدھ سے ایمیرٹس اولڈ ٹریفورڈ میں شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ سے قبل پانچ ایسے بڑے تنازعات کی تفصیلات شائع کی ہیں۔
1956: امپائر کا ’اغوا‘
سال 1956 میں انگلینڈ ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران پشاور میں کھیلے جانے والے میچ میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے پاکستانی امپائر ادریس بیگ کو 'اغوا' کیا اور انہیں اپنے ہوٹل لے گئے جہاں ان پر دو بالٹیاں پانی کی پھینکی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انگلینڈ کے اس وقت کے کپتان ڈونلڈ کرر نے اس واقعے کو ایک مذاق قرار دیا جس کی وجہ ادریس بیگ کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف دیے جانے والے فیصلے تھے۔ یہ واقعہ جسے ایک مذاق قرار دیا گیا ان واقعات کی وجہ بنا جو بعد میں تنازعات کی شکل اختیار کر گئے۔
1987: غیر قانونی فیلڈنگ پر تنازع
سال 1987 میں فیصل آباد میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں دوسرے دن کے دوران امپائر شکور رانا نے انگلینڈ کے کپتان مائیک گاٹنگ پر ایک فیلڈر کو غیر قانونی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کا الزام عائد کیا۔
مائیک گاٹنگ بضد رہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ انہوں نے امپائر کی جانب سے خود کو 'دھوکے باز' قرار دینے کا بدلہ کچھ ایسے لیا کہ میچ کے دوران ہی وہ اور شکور رانا ایک دوسرے کو اشارے کرتے رہے جس کے بعد شکور رانا نے تیسرے دن امپائرنگ کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے باعث تیسرے دن کا کھیل نہ ہو سکا۔ گاٹنگ کی جانب سے معافی مانگنے کے بعد ہی چوتھے دن کا کھیل ممکن ہو سکا۔
1992: ریورس سوئنگ سے پریشان انگلینڈ کی ٹیم
انگلینڈ کی کرکٹ کے لیے تب ریورس سونگ نئی بات تھی جب پاکستانی فاسٹ بولرز وسیم اکرم اور وقار یونس اس کا بھرپور استعمال کرتے تھے۔ ان کی کامیابی نے کئی شکوک و شبہات جو جنم دیا کیونکہ انگلینڈ کے بولرز پوری کوشش کے باوجود اتنی کامیابی نہیں حاصل کر پا رہے تھے۔ سال 1992 میں لارڈز میں کھیلے گئے ایک روزہ میچ کے دوران بال ٹیمپرنگ کا مسئلہ خبروں کی زینت رہا۔
خراب موسم کے باعث کھیل کو اگلے دن تک موخر کر دیا گیا لیکن دوسرے دن تینوں انگلش میچ آفیشلز نے لا 42 کے تحت گیند بدلنے کا حکم دے دیا۔
منتظمین نے ممکنہ سکینڈل کے خدشے کے تحت گیند بدلنے کی وجہ بتانے سے اجتناب کیا جس کے باعث پاکستانی ٹیم کی جانب سے کافی غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور اسے کئی الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جب کہ دوسری جانب انگلینڈ کے بلے باز ایلن لیمب نے اخبار ڈیلی مرر کو دیے جانے والے انٹرویو میں اس شہ سرخی پر انٹرویو دیا کہ 'پاکستان کرکٹ میں کیسے دھوکہ دیتا ہے۔'
2006: میچ کو ضبط کرنے کا فیصلہ
سال 2006 میں پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی 129 سالہ تاریخ اور 1814 میچوں میں پہلی ٹیم بنی جس کا میچ ضبط کیا گیا۔
یہ واقعہ اوول میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز پیش آیا جب امپائر ڈیرل ہیئر کی جانب سے پاکستان پر بال ٹیمپرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے پانچ رنز کا جرمانہ کیا گیا۔ پاکستان کی ٹیم نے چائے کے وقفے کے بعد احتجاج کے طور پر گراؤنڈ میں جانے سے انکار کر دیا۔
امپائرز نے میچ کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیا جس میں کچھ گھنٹئے بعد انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا گیا۔
یہ میچ ڈیرل ہیئر کے کرئیر کی خاتمے کی پہلی سیڑھی بھی بنا۔ بعد میں ان کی جانب سے پانچ لاکھ ڈالر کے بدلے استعفیٰ دینے کی پیش کش کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا۔
2010: سپاٹ فکسنگ
سال 2010 میں پاکستان کرکٹ کو اس وقت ایک سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا جب پاکستانی ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، فاسٹ بولرز محمد آصف اور محمد عامر پر سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔
کپتان سلمان بٹ پر الزام تھا کہ انہوں نے محمد عامر اور محمد آصف کو جان بوجھ کر نو بالز کرانے کی ہدایت کی ہے۔ الزامات ثابت ہونے کے بعد تینوں کھلاڑیوں کو پابندیوں اور جیل کا سامنا کرنا پڑا۔
جب ٹیمیں ایک روزہ میچ کے لیے 'ہوم آف کرکٹ' لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پہنچی تو پریکٹس سیشن کے دوران انگلینڈ کے بلے باز جوناتھن ٹروٹ اور پاکستانی بولر وہاب ریاض کے درمیان شدید تلخ کلامی کا واقعہ پیش آیا۔
وہاب ریاض اس وقت بھی پاکستانی ٹیم کا حصہ ہیں جبکہ ٹروٹ ریٹائر ہونے کے بعد انگلینڈ کے بیٹنگ کنسلٹنٹ کا کردار نبھا رہے ہیں۔