اولڈ ٹریفورڈ میں تیسرے اور آخری ٹیسٹ میں شکست تو ویسٹ انڈیز کو ہوئی ہے لیکن سراسیمگی پاکستان کیمپ میں پھیل گئی،جنھیں آٹھ دن بعد سٹیورٹ براڈ کی سربراہی میں اس خطرناک بولنگ اٹیک کا سامنا کرنا ہے جس نے ویسٹ انڈیز کے کسی بلے باز کوسکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔
براڈ کے لیے مانچسٹر کا میدان اولڈ ٹریفورڈ خاصا خوش قسمت ثابت ہوا، جہاں انھوں نے میچ میں 10 کھلاڑی آؤٹ کیے اور پھر اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 500 وکٹوں کا ہندسہ بھی عبور کر لیا۔ یہ ان کے 140 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل کیریئر میں تیسرا موقع تھا جب وہ 10 بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھانے میں کامیاب رہے۔ وہ اب وکٹوں کی تعداد کے لحاظ سے تاریخ کرکٹ میں ساتویں بڑے بولر ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو براڈ نے سخت محنت سے حاصل کیا، لیکن وہ بھارتی بلے باز یووراج سنگھ کو کبھی نہیں بھولیں گے جنھوں نے ان کے ایک اوور میں چھ چھکے لگائے تھے۔
34 سالہ براڈ جب بھی ڈراپ ہونے کے بعد واپس آتے ہیں تو چھا جاتے ہیں۔2018 میں پاکستان کے خلاف ہیڈنگلے لیڈز ٹیسٹ میں بھی وہ پاکستانی بلے بازوں پر قہر بن کر ٹوٹے تھے۔ اس ٹیسٹ سے قبل سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے مطالبہ کیا تھا کہ براڈ اور اینڈرسن کو ٹیم سے نکال دینا چاہیے، تاہم براڈ کی شاندار بولنگ نے وان سمیت تمام نقادوں کے منہ بند کر دیے تھے۔
2018 کی ٹیسٹ سیریز میں لارڈز ٹیسٹ جیتنے کے بعد کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ محض ایک ہفتہ قبل داد و تحسین سمیٹنے والی پاکستانی بیٹنگ لیڈز میں اس طرح فلاپ ہو جائے گی۔ پاکستان نے جب میچ کے تیسرے دن لنچ سے کچھ دیر قبل اپنی دوسری اننگز شروع کی تو امید تھی کہ پاکستان پورا دن نکال لے گا لیکن انگلش بولرز کے دباؤ کے شکار پاکستانی بلے بازوں نے محض ڈیڑھ گھنٹے میں ہتھیار ڈال دیے۔
لیڈز ٹیسٹ میں جس طرح پاکستان سرنگوں ہوا بالکل اسی طرح ویسٹ انڈیز نے بھی اولڈ ٹریفورڈ میں آسان سی وکٹ پر اوسان کھو دیے اور تیسرت ٹیسٹ کی آخری اننگز میں 129 پر پوری بیٹنگ سمٹ گئی۔
انگلینڈ کا اگلا ہدف
ویسٹ انڈیز کے خلاف 1-2 سے سیریز جیتنے کے بعد اب انگلینڈ کی نگاہیں پاکستان کے ساتھ سیریز پر مرکوز ہیں۔ میزبان ٹیم کے بلے باز اچھی فارم میں ہیں اور بولرز ہوم پچز پر خطرناک بولنگ کر رہے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم خوش قسمت رہی کہ اسے کرونا وبا کے بعد پہلے ٹیسٹ میں اس وقت کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا جب انگلینڈ کی ٹیم خود کو اکھٹا کرنے میں مصروف تھی۔ جو روٹ موجود نہیں تھے اور نئے کھلاڑی خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
پھر نتیجہ یہ نکلا کہ انگلینڈ پہلے ٹیسٹ میں شکست کھا گئی لیکن پھر اس نے خود کو سنبھالا، غلطیوں سے سیکھا اور اگلے دو ٹیسٹ میچوں میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ٹیم نہ صرف متحد ہوگئی بلکہ ان کے حوصلے بھی بلند ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان ٹیم کے انگلینڈ میں قیام کو اگرچہ ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے لیکن ٹیم اب تک اپنے ہتھیار صحیح طور پر تیز نہیں کرسکی۔ کچھ بارش اور کچھ مختلف کمبی نیشنز نے اب تک پاکستان کی بظاہر کوئی مضبوط حکمت عملی نہیں بننے دی۔
انٹرا سکواڈ پریکٹس میچز میں کہیں بولرز آف کلر رہے تو کہیں بلے باز سنبھل نہیں سکے ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹرز اس سیریز میں پاکستان کی سب سے کمزور ٹیم دیکھ رہے ہیں جن میں سوائے بابر اعظم کے کسی بھی بلے باز میں اعتماد نظر نہیں آرہا جبکہ نوجوان بولرز کی موجودگی میں تجربے کا فقدان ٹیم مینجمنٹ کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف انگلش بولرز کی بولنگ نے پاکستانی بلے بازوں کو پریشان کردیا ہے۔ براڈ اور کرس ووکس نے جس طرح آخری ٹیسٹ میں بولنگ کی اس سے پاکستانی بلے بازوں کی تکنیک پر بہت سارے سوال اٹھ رہے ہیں۔
براڈ کی وائیڈ کریز سے آف کٹر گیندیں کبھی کبھی کھیلنا ناممکن ہوتا ہے، وہ کریز کا استعمال بہت اچھا کرتے ہیں جبکہ اینڈرسن کی آؤٹ سوئنگ اور جوفرا آرچر کی شارٹ پچ گیندیں کھیلنا پاکستانی بلے بازوں کے لیے سخت امتحان ہو گا۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف انگلینڈ نے زیادہ تر فل لینتھ بولنگ کی لیکن پاکستان کے خلاف مختلف حکمت عملی ہوگی، چونکہ پاکستان میں اس وقت کوئی بھی بلے باز باؤنسرز کو اچھا ہک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لہٰذا براڈ، آرچر اور اینڈرسن شاید باؤنسرز کی برسات کریں اور پاکستانی بلے بازوں کا حوصلہ آزمائیں۔