ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک کے پیچھے ٹیکنالوجی کے 37 سالہ ارب پتی چینی ماہر جانگ یمنگ ہیں۔ ان کی نگاہوں نے نوجوانوں میں موجود رجحان کو بھانپ لیا اور اس طرح ان کی ایپ کو دنیا بھر میں بے پناہ کامیابی ملی لیکن ہو سکتا ہے کہ ان کی ایجاد کرنے کی صلاحیت اتنی نہ ہو کہ امریکہ کی پرکشش مارکیٹ کو کمپنی کے لیے محفوظ رکھ سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جانگ یمنگ کو ان دنوں انتہائی دباؤ کا سامنا ہے۔ وہ دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹک ٹاک محفوظ ایپ ہے جبکہ وہ مغربی ملکوں کے مطالبات کے سامنے بظاہر نہ جھک کر چین میں اپنی ساکھ بچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
جانگ نے سب سے پہلے 'بائیٹ ڈانس' کمپنی متعارف کروائی تھی، جس کے تحت چین میں مقامی طور پر 'ڈوئین' ایپ لانچ کی گئی اور پھر اس کے بین الاقوامی ورژن کے طور پر ٹک ٹاک مارکیٹ میں آئی، جس کے ذریعے مختصر دورانیے کی ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں۔ یہ ویڈیوز بالوں کو رنگ کرنے کے طریقوں سے لے کر ڈانس اور روزمرہ کی زندگی سے متعلق لطیفوں پر مبنی ہوتی ہیں۔
بائیٹ ڈانس کی دونوں ایپس کو الگ کرنے سے جانگ کی ذہانت کا اظہار ہوتا ہے کہ کس طرح انہوں نے چین کے انٹرنیٹ سے متعلق سخت قواعد کے اندر رہتے ہوئے آزاد عالمی مارکیٹ کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی۔
دو کشتیوں کی سواری میں خطرہ بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جب کہ ٹک ٹاک واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی کشیدگی میں اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اب جانگ کو صرف چھ ہفتے دیے گئے ہیں کہ وہ ٹاک ٹاک کا امریکہ میں خریدار تلاش کریں یا پھر اس پر اس مارکیٹ میں پابندی لگ جائے گی۔
جانگ کاروباری شخصیت بننے سے پہلے ایک کمپیوٹر پروگرامر تھے۔ انہوں نے بائیٹ ڈانس بنائی جس نے انہیں چینی ارب پتی افراد کے کلب تک پہنچا دیا اور وہ پہلے سے مستحکم کئی ٹیکنالوجی ٹائیکونز سے آگے نکل گئے۔
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں قائم سرمایہ کار کمپنی اکیتامچینوکوکیپیٹل کے تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ کمپنی کا 2018 کا سات ارب 40 کروڑ ڈالرکا ریونیو گذشتہ برس دگنا ہو گیا اور وہ فیس بک اور گوگل کی سرپرست امریکی کمپنی الفابیٹ کی ایک مضبوط حریف بنتی جا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹک ٹاک کو جانگ کے مصنوعی ذہانت کے اولین استعمال کے منصوبے کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا۔ شروع میں اس نے خبروں کے لیے استعمال ہونے والی بڑی ایپ 'جنری تاشاؤ' کے ساتھ چین میں کامیابی حاصل کی۔
اس کے بعد اندرون اور بیرون ملک کچھ اور کامیابیاں ملیں لیکن ٹاک ٹاک متعارف کروائے جانے کے بعد کمپنی حقیقی معنوں میں اگلے مرحلے میں داخل ہو گئی۔
تین سال پہلے ٹاک ٹاک لانچ ہونے کے بعد اسے دنیا بھر میں دو ارب افراد نے ڈاؤن لوڈ کیا اور امریکہ اوربھارت اس کی دو بڑی بین الاقوامی مارکیٹیں بن گئیں۔
اس وقت بائیٹ ڈانس کے 30 ملکوں میں 60 ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں۔ مارچ میں جانگ نے کہا تھا کہ وہ مزید 40 ہزار کارکن بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے بعد کمپنی کے ملازمین کی تعداد ای کامرس کی بڑی چینی کمپنی علی بابا کے ملازمین کے قریب قریب ہو جائے گی۔
کمپنی نے جمعرات کو اپنے یورپی صارفین کے لیے پہلا ڈیٹا سینٹر قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، جو سنر آئرلینڈ میں بنایا جائے گا۔ لیکن اس سال ٹک ٹاک کی تیزی سے ہونے والی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے اور وہ چین کے عالمی سطح پر خراب ہوتے تعلقات سے متاثر ہوئی ہے۔
جون میں لداخ میں بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان جھڑپ کے بعد بھارتی حکومت نے ٹاک ٹاک پر پابندی لگا دی جس سے ایک بڑی مارکیٹ کمپنی کے ہاتھ سے نکل گئی۔ ٹیلی کام کمپنی ہواوے کی طرح یہ کمپنی بھی نظروں آ گئی جس کی وجہ وہ خدشات جن کے مطابق بائیٹ ڈانس کو صارفین کے کوائف چینی خفیہ ادارے کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
کمپنی کا اصرار ہے کہ اس نے صارفین کا ڈیٹا کبھی چینی حکومت کو نہیں دیا اور نہ ہی وہ یہ معلومات کسی حکومت کو دے گی۔ اس کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ماہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ میں استعمال جاری رکھنے کے لیے ٹک ٹاک چھ ماہ میں فروخت کر دی جائے یا پھر اس پر پابندی لگا دی جائے گی۔
اس حوالے سے بھی خبریں گرم ہیں کہ مائیکرو سافٹ نے امریکہ میں ٹک ٹاک کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس حوالے سے جانگ یمنگ کی کمپنی سے مذاکرات کی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ٹاک ٹاک کے امریکہ کے حوالے سے معاملے کے اس کے عالمی سطح پر استعمال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، تاہم اگر جانگ ٹک ٹاک کو بیچ کر بھاری رقم لینے پر تیار ہو بھی جائیں تو انہیں چین میں غصے کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ بعض قوم پرست آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ ٹاک ٹاک کو فروخت کیا گیا تو بائیٹ ڈانس کا بائیکاٹ کر دیا جائے گا۔