حالیہ مون سون بارشوں کے باعث جہاں صوبہ بلوچستان کے 21 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں، وہیں سندھ کے مغربی حصے میں بلوچستان کی سرحد سے متصل ضلع دادو کے بارانی علاقے کاچھو میں کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والے سیلابی ریلوں سے متعدد گاؤں زیر آب آگئے ہیں۔
کاچھو کے علاقے میں جاری ریسکیو آپریشن کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اتوار کی صبح جوہی پہنچے جبکہ سیلابی ریلوں سے متاثر آبادی کی امداد کے لیے پاکستانی فوج کے اہلکار پہلے ہی مصروف ہیں۔
جوہی شہر کی سماجی تنظیم سجاگ سنسار آرگنائزیشن کے رہنما معشوق برہمانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'پاکستانی فوج کے اہلکار سیلاب سے متاثرہ مختلف علاقوں سے لوگوں کو ریسکیو کرکے جوہی شہر پہنچا رہے ہیں۔'
جوہی شہر ہی سے تعلق رکھنے والے کراچی کے صحافی ڈاکٹر علی رند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے ہیڈکواٹر شہر کو چھوڑ کر باقی پوری تحصیل کاچھو میں شامل ہے جس میں واہی پاندھی، ٹنڈو رحیم، ڈرگھ بالا، چھنی، گاجی شاہ، حاجی خان سمیت کئی چھوٹے شہر اور متعدد دیہی علاقے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'یہ سب علاقے روڈ یا کچے راستے کے ذریعے جوہی شہر سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن حالیہ شدید بارشوں کے بعد یہ تمام علاقے سیلابی ریلوں کے باعث زیر آب آگئے ہیں اور زمینی طور پر جوہی سے مکمل طور کٹ کر رہ گئے ہیں، جس کے باعث وہاں کھانے پینے کی اشیا کا بحران ہوسکتا ہے۔'
مقامی افراد کے مطابق کاچھو میں بارشوں کے بعد زیر آب آنے والے اکثر شہر یا گاؤں، کاچھو کی بڑی بارانی ندی 'نئیں گاج' میں طغیانی کے باعث متاثر ہوئے ہیں۔
کاچھو کو 'ڈبونے' والی نئیں گاج
کاچھو سندھ کے مغربی حصے میں بلوچستان کی سرحد کے ساتھ پھیلا ہوا بارانی علاقہ ہے، جو کراچی سے متصل کھیرتھر نیشنل پارک سے شروع ہو کر ضلع جامشورو، دادو سے لے کر شہداد کوٹ کے پہاڑی سلسلے تک پہاڑوں، وسیع میدانوں اور صحرائی علاقوں پر پھیلا ہوا ہے۔
کاچھو کے مغرب میں سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع سندھ کا پہاڑی سلسلہ کھیرتھر، مشرق میں دریائے سندھ اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے باندھا گیا فلڈ پروٹیکشن یعنی ایف پی بند، جنوب میں منچھر جھیل اور شمال میں جیکب آباد اور بلوچستان کے علاقے کچھی کا صحرائی علاقہ ہے۔
چونکہ کاچھو سندھ کے کھیرتھر پہاڑی سلسلے اور بلوچستان کے پہاڑوں کے برابر ڈھلوان میں پھیلا ہوا ہے، اس لیے بارشوں کے دوران ان پہاڑوں سے آنے والا پانی مختلف چھوٹی بڑی ندیوں میں بہتا ہے، جنہیں مقامی لوگ 'نئیں' پکارتے ہیں، جس کا مطلب ہے گرجدار آواز سے بہنے والی ندی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاچھو میں نئیں مولا، سالاری، نئیں گاج، نئیں نلی، جھل مگسی، ککڑانی، ہلیلی، کھندھانی، انگئی نامی متعدد بارانی ندیاں یا مقامی زبان میں پکاری جانی والی نئیں موجود ہیں۔ ان میں 'نئیں گاج' ایک بڑی ندی سمجھی جاتی ہے اور یہ واحد بڑی ندی ہے جو بلوچستان سے بہتی ہوئی سندھ میں داخل ہوتی ہے۔
نئیں گاج کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نے بہت بڑے رقبے کو سیراب کرنے کے ساتھ چار اعشاریہ دو میگاواٹ بجلی کی پیدوار کے لیے اس بارانی ندی کے بہاؤ پر 'نئیں گاج ڈیم' بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ دس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باجود یہ ڈیم مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
سندھ میں نئیں گاج کے داخل ہونے کے مقام پر پانی کے ذخیرے کا ایک بڑا تالاب بنا ہوا ہے، جسے مقامی لوگ 'کُنبھ' کے نام سے جانتے ہیں جس میں مگرمچھ کے ساتھ مچھلی بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ سندھ میں داخل ہونے کے بعد نئیں گاج تقریباً 50 میل کا فاصلہ طے کرتے ہوئے ضلع دادو کے جوہی شہر سے کچھ فاصلے پر بہتی ہوئی منچھر جھیل میں جاملتی ہے۔
نئیں گاج کے دو اہم بہاؤ ہیں، جن میں سے ایک مشرق سے نئیں سک سے ہوتا ہوا پٹ گل محمد، پیارو گوٹھ سے دریا سندھ میں ملتا ہے جبکہ دوسرا بہاؤ ڈرگھ بالا، جوہی، بھان سعیدآباد سے ہوتا ہوا ٹلٹی کے نزدیک دریا سندھ سے ملتا ہے۔
حالیہ بارشوں کی تباہی دوسرے والے بہاؤ میں تغیانی آنے کے باعث واقع ہوئی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس سطح کے سیلاب نے کاچھو کو متاثر کیا ہے۔ محکمہ آبپاشی سندھ کے مطابق 1955 میں بارشوں کے بعد پورا علاقہ مکمل طور پر ڈوب گیا تھا۔ اس وقت نئیں گاج میں چار لاکھ کیوسک کا بہاؤ تھا۔ اس کے بعد 1955 میں بھی ایک بہت بڑے سیلاب نے اس علاقے کو متاثر کیا تھا۔ 2010 میں بھی اسی سطح کا سیلاب رپورٹ ہوا تھا۔
برطانوی دور حکومت کے دوران 1930 میں سکھر بیراج کی تعمیر کے دوران کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ نئیں گاج اپنے بہاؤ کے باعث ہر سال دادو کینال اور اس سے نکلی والی چھوٹی نہروں کو ہر سال نقصان پہنچاتی ہے، اس لیے 1933 میں سکھر بیراج کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد نئیں گاج کے بہاؤ کا رخ مستقل تبدیل کرنے کے لیے، پہاڑی سلسلے کے مقام پر 'تیر دیوار' تعمیر کی گئی، جہاں سے یہ نکل کر میدانی علاقے میں بہنا شروع کرتی ہے، تاکہ نئیں گاج کے پانی کے بہاؤ کو منچھر جھیل کی جانب موڑا جاسکے۔
اس کے ساتھ سیلاب سے بچاؤ کے لیے دس کلومیٹر لمبا فلڈ پروٹیکشن یا ایف پی بند بھی باندھا گیا، جسے مضبوطی کے لیے پتھروں سے پچنگ بھی کی گئی۔
معشوق برہمانی کے مطابق: 'پروٹیکشن یا ایف پی بند پر مضبوطی کے لیے پتھروں سے پچنگ کو جس لوہے کی تار سے باندھا گیا تھا، اسے مقامی لوگوں نے جگہ جگہ سے نکال لیا ہے جس سے بند کمزور ہوگیا ہے اور کئی جگہ سے بند ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے کاچھو میں درختوں کو گذشتہ چند سالوں میں بے دردی سے کاٹا ہے، جس کے باعث بھی سیلابوں میں شدت آرہی ہے۔'
سندھ کے علاقے صحرائے تھر کی مانند ویسے تو کاچھو بھی بارانی علاقہ ہے، مگر اس کی زمیں بہت ہی زرخیر ہے۔ سندھی اور انگریزی زبان کے مشہور شاعر، ادیب اور صحافی انور پیرزادو نے اس حوالے سے لکھا کہ 'کاچھو کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ اگر اس میں کوئی بندہ بھی بویا جائے تو وہ بھی اگ آئے گا۔'
معشوق برہمانی کے مطابق کاچھو میں بارشوں کے بعد بڑے پیمانے پر جوار، مونگ، موٹھ، تل اور گوار کی فصل کے علاوہ سبزیاں اور خربوزے اور تربوز جسے پھل اگائے جاتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے باعث نقصان کے علاوہ کاچھو میں کئی سالوں سے جاری شدید قحط سالی کا بھی خاتمہ ہوگا۔
'کاچھو میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنی جگہ مگر پانی ہمیشہ خوشیاں اور امید لاتا ہے۔ عام طور پر مقامی لوگ فصلوں کے بیج ذخیرہ کرتے ہیں مگر اس سال سیلاب میں بیج بھی بہہ گیا ہے تو اس لیے اب لوگ سود پر بیج خریدیں گے، لہذا ایک اچھے سیلاب کے باوجود لوگ فصلوں سے منافع نہیں لے سکیں گے، اس لیے اگر حکومت مقامی لوگوں کو ریسکیو کے ساتھ مفت بیج بھی فراہم کرے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔'