زیب النسا گلگت غذر سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ مسقط عمان میں مقیم ہیں۔
زیب النسا نے یونیورسٹی آف کراچی سے بی اے اور کینیڈا سے نیوٹریشن اور فٹنس ایجوکشن میں بھی ڈپلومہ کر رکھا ہے۔ زیب النسا مکس میڈیا آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل اور کلچرل ایکٹوسٹ بھی ہیں۔
زیب النسا گلگت اور چترال کی روایتی اشیا جیسے کپڑے، برتن، زیورات، آلات موسیقی اور آرائشی سامان کو مستقبل کے لیے نہ صرف محفوظ کرنا چاہتی ہیں بلکہ ان اشیا کو نئی جدت کے ساتھ ساتھ قابل استعمال بنانے کی کوشش بھی کرتی ہیں تاکہ یہ ان کے آبائی علاقے میں ہنرمندوں کا باعزت ذریعہ معاش بن سکے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے گھر کے اندر دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا میوزیم بنا رکھا ہے۔
زیب کا کہنا ہےکہ ان کے پاس مسقط میں 200 سے زیادہ قسم کی قدیمی اور روایتی کلچرل اشیا موجود ہیں جن میں لباس، زیور، موسیقی کے آلات اور دوسری روایتی اشیا شامل ہیں۔
انھوں نے ان چیزوں کو نہ صرف محفوظ کر لیا ہے بلکہ نئے دور سے ہم آہنگ کرکے قابل استعمال بھی بنایا ہے۔ وہ ان تمام اشیاء کی ڈیزائننگ بھی خود کرتی ہیں۔
مستقبل میں نجی عجائب گھر کے لیے اسلام آباد میں بھی ایک کمرہ سامان سے بھرا ان کے پاس موجود ہے تاکہ اسے کسی باسہولت مرحلے میں ترتیب دیا جا سکے جس سے سیاحوں کو ثقافت کے بارے میں بہت کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔زیب ٹوپیوں سمیت بعض چیزیں خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں جب کہ بھاری اشیاء کی ڈیزائننگ خود کرتی ہیں۔
زیب بین الاقوامی سطح پر مسقط فیسٹیول میں گلگت اور چترال کی نمائندگی کر چکی ہیں اور ان کے کام کو بہت سراہا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کلچر بہت منفرد ہے، لوگ اس کی طرح مائل ہوتے ہیں، اگر ان چیزوں کو محفوظ کیا گیا تو یہ ہمارے لیے ذرائع معاش بن سکتی ہیں۔
اس مقصد کے لیے ان کے پاس ہر قسم کے نوادرات موجود ہیں جن میں کپڑے سے لے کر برتن اور زیورات تک شامل ہیں جو انھوں نے محفوظ کی ہیں۔
ڈائریکٹر آرکیالوجی و میوزیم، ڈاکٹر عبدالصمد کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جو چاہے اپنے لیے میوزیم بنا سکتا ہے لیکن اس کے کچھ ضوابط ہیں۔
اس مقصد کے لیے میوزیم اور میوزیم میں رکھی اشیاء کو حکومت کے ساتھ رجسٹر کرنا ہوگا اور ان چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکے گا نیز جو بھی اشیا اس میوزیم میں رکھی جائیں گی، حکومت کے علم میں لایا جائے گا۔