سوئس حکومت نے جمعرات کو لاٹری کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کی تجویز کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس عمل سے عدالت کی قانونی حیثیت متاثر ہو گی۔
سوئٹزرلینڈ میں سپریم کورٹ کے جج سیاسی جماعتوں کے ارکان ہوتے ہیں اور ان کا انتخاب اور دوبارہ منتخب کرنے کا اختیار بھی انہی سیاسی جماعتوں کے پاس ہوتا ہے جس سے مذکورہ ججوں کو ممکنہ طور پر سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نظام عدل کو تبدیل کرنے کے لیے ایک ممتاز ملکی تاجر ادرین گیسسر ریفرنڈم مہم کے ذریعے نظام انصاف میں اصلاحات لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مہم میں ججوں کو لاٹری یا قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
تاہم سوئس جمہوری نظام کے تحت اس مسئلے پر رائے شماری سے قبل کچھ قانونی ماہرین اور اب حکومت نے ججوں کے عہدے کے لیے موزوں امیدواروں کو قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب کرنے کے خیال پر تنقید کی ہے۔
حکومت نے ایک بیان میں پارلیمنٹ سے اس اقدام کو مسترد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’لاٹری کے ذریعے تقرری کا عمل جمہوری انتخاب کی بجائے چانس پر منحصر کرتا ہے جو سوئس جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔‘
حکومت نے کہا کہ موجودہ نظام میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے عدالت کے ججوں کا انتخاب کر کے اپنی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔
دوسری جانب مہم کی قیادت کرنے والے گیسسر نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حکومت کے دلائل کمزور ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’لاٹری سیاسی پارٹی کے طریقہ کار سے کہیں زیادہ جمہوری عمل ہے۔ حکومتی نظام میں آبادی کا ایک بڑا حصہ شامل نہیں جس کی وجہ سے پارٹی ممبرشپ کے بغیر امیدواروں کی تقرری نہیں کی جاسکتی ہے اور خواتین کی بھی نمائندگی نہیں مل پاتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نےمزید کہا کہ وہ اپنی مہم کے ذریعے سوئس ووٹرز کو آگاہ کرتے رہیں گے جو اس سے قبل ججوں کے سیاسی تعلقات سے بڑی حد تک لاعلم تھے۔ سوئس ججوں کی تنظیم سمیت قانونی ماہرین نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ معاملہ گذشتہ سال اس وقت منظرعام پر آیا جب سپریم کورٹ نے سوئس بینک ’یو بی ایس‘ کو فرانسیسی ٹیکس حکام کو صارفین کا ڈیٹا جاری کرنے کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ ملک کی دائیں بازو کی جماعت سوئس پیپلز پارٹی (ایس وی پی) نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی تھی۔
ایس وی پی اس لیے ناراض تھی کیونکہ جس جج نے اس عدالتی حکم کے حق میں فیصلہ کن ووٹ دیا تھا اس کا تعلق اسی جماعت سے تھا جس کے بعد اس نے جج کو دوبارہ منتخب نہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔