اقوام متحدہ کے جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے ادارے ’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘ (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی پیر کو اپنے پہلے دورے پر تہران پہنچیں گے۔
عرب نیوز کے مطابق ان کے دورے کا مقصد ایران پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ عالمی ادارے کے انسپکٹرز کو دو مشتبہ سابقہ جوہری مقامات تک رسائی فراہم کرے۔ ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان اس مسٔلے پر ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے ڈیڈ لاک چلا آ رہا تھا۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے جون میں ایک قرارداد کی منظوری دی تھی جس میں ایران پر دباؤ بڑھایا گیا تھا کہ وہ ادارے کے انسپکٹرز کو ان جوہری مقامات پر جانے کی اجازت دے جن کا ذکر آئی اے ای اے کی دو سہ ماہی رپورٹوں میں کیا گیا ہے کیونکہ انہیں شک ہے کہ وہاں غیر اعلانیہ طور پر جوہری مواد یا تو موجود ہے یا وہاں اس کا سراغ مل سکتا ہے۔
ہفتے کو جاری ایک بیان میں عالمی ایجنسی کے سربراہ نے کہا: ’میرا مقصد یہ ہے کہ میں تہران میں ایرانی حکام سے ملاقاتوں میں ایجنسی کو (جوہری) حفاظت سے متعلق مطلوب سوالات کے جواب حاصل کروں اور امید ہے کہ میرا دورہ خاص طور پر رسائی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان ٹھوس پیشرفت کا باعث کا باعث بنے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رافیل گروسی نے دسمبر سے آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ گروسی ایران میں اعلیٰ ترین حکام سے ملاقاتیں کریں گے تاہم ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔
ویانا میں موجود عالمی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ستمبر میں بورڈ آف گورنرز کے اگلے اجلاس سے پہلے ہی ایرانی جوہری مقامات تک رسائی کے مسٔلے کو حل کر لیا جائے گا۔
دوسری جانب بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی میں ایران کے سفیر کاظم غریب آبادی نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا: ’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ دورہ باہمی تعاون کو تقویت بخشے گا۔‘
گذشتہ دنوں امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا کہ وہ ایران پر عالمی ادارے کی تمام پابندیاں بحال کر رہا ہے جو ’جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن‘ (جے سی پی او اے) کے تحت 2015 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور شدہ قرارداد 2231 کے تحت عنقریب ختم ہونے والی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا: 'ان پابندیوں سے ایران کو جوہری مواد کی افزودگی جیسی جوہری سرگرمیوں سے باز رکھا جائے گا کیوں کہ ان پابندیوں کا اطلاق جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر بھی لاگو ہوسکتا ہے۔'