اقوام متحدہ کی جانب سے ادارہ برائے انسداد دہشت گردی کے سربراہ ولادی میرورون کوف نے کہا ہے کہ داعش افغانستان کو اپنا اثرو رسوخ پورے علاقے میں پھیلانے کے استعمال کرنا چاہتی ہے نیز ان جنگجوؤں کی توجہ بھی حاصل کرنا چاہتی ہے جو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے مخالف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش سے وابستہ گروہوں نے کابل سمیت افغانستان کے مختلف حصوں میں بڑے اہداف پر حملے بھی کیے ہیں۔
جیلوں میں انتہاپسندی کی تربیت، انتہاپسندوں کی بحالی میں ناکامی اور دہشت گردی یا دہشت گردوں سے روابط کا پس منظررکھنے والے خطرناک قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی انہوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔
مزید براں دنیا بھر میں عسکریت پسند تنظیم داعش کے پھیلاؤ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شکست کے دو سال کے بعد بھی ایک اندازے کے مطابق اس کے 10 ہزار جنگجو تاحال عراق اور شام میں سرگرم ہیں نیز رواں سال ان کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ولادی میرورون کوف نے سلامتی کونسل کوبتایا کہ داعش کے جنگجو چھوٹے گروہوں کی شکل میں عراق اور شام کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا ہے کہ داعش نے نئی گروہ بندی کر لی ہے اور اس کی سرگرمیاں نہ صرف جنگی علاقوں جیسے کہ عراق اور شام میں بڑھ گئی ہیں بلکہ تنظیم سے وابستہ ذیلی علاقائی گروہوں کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ علاقے جہاں جنگ نہیں ہو رہی وہاں داعش کے خطرے میں وقتی طورپر کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا: ' کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں کمی لانے کے لیے کیے گئے اقدامات جیسا کہ لاک ڈاؤن اور نقل و حرکت پر پابندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ملکوں میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ کم ہوا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود انفرادی سطح پر حملوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔ انفرادی یا گروہ کی سطح پر سرگرم افراد کو حملوں کی آن لائن تحریک ملی۔ داعش نے کووڈ 19 کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پروپیگنڈا کیا اورحملوں کی ترغیب دی۔
ولادی میرورون کوف نے مزید کہا کہ کووڈ 19 کے بحران نے دہشت گردی کے خاتمے کی اہمیت کو نمایاں کر دیا ہے کیونکہ داعش اور دوسرے دہشت گرد گروہ وبا کے دوررس معاشی و معاشرتی اورسیاسی اثرات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ورون کوف نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران داعش کی طرف سے بھرتیوں کے عمل اور مالی معاملات پر اثرات واضح نہیں ہیں۔ تاہم فنڈ کے حصول کے لیے سائبرکرائم کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ وبا کی وجہ سے زیادہ لوگ آن لائن ٹرانزیکشن کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ثبوت موجود ہے کہ داعش کے جہادی عراق اور شام میں نئی گروہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اس موقعے پر حکام کو داعش کے نئے سربراہ امیر محمد سعیدعبدالرحمان المولا کی قیادت میں تنظیم کی حکمت عملی میں تبدیلی کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملا۔
افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے ورون کوف نے کہا کہ مغربی افریقہ صوبے میں داعش کی توجہ عالمی سطح پر پروپیگنڈے پرہے۔ یہاں تنظیم کے ارکان کی تعداد 3500 ہے جو دور دراز کے صوبوں میں سب سے زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی افریقہ میں داعش اپنی مرکزی تنظیم کے ساتھ روابط مضبوط بنانے میں مصروف ہے۔ داعش کی مغربی افریقی شاخ برکینافاسو، مالی اور نائیجر میں سب سے سے زیادہ خطرناک دہشت پسند گروپ ہے۔
ولادی میرورون کوف کا کہنا تھا کہ لیبیا میں داعش کے چند سو جنگجو ہیں جو لسانی کشیدگی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ ایک ایسا خطرہ ہیں جس کے علاقائی سطح پر وسیع تر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یورپ میں بڑا خطرہ وہاں مقامی سطح پر انٹرنیٹ کے ذریعے تیار کیے گئے دہشت گرد گروہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داعش نے فرانس اور برطانیہ میں حملوں کی ترغیب بھی دی۔