قبروں پر لگے کتبوں پر درج شناختی نمبر ان افراد کی واحد پہچان ہے جو یورپ جانے کی کوشش میں ترکی کی ایک جھیل میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
ترکی اور ایران کے درمیان واقع وسیع و عریض ’وان‘ جھیل روزگار اور اپنی جان کے تحفظ کے خواہاں افغان، پاکستانی اور دیگر تارکین وطن کے لیے موت کا جال بن گئی۔
جون اور دسمبر میں دو کشتیوں کے یہاں ڈوبنے سے 68 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران کی سرحد کے قریب ترکی کے ناہموار مشرقی خطے میں قائم چوکیوں سے بچنے کے لیے پناہ گزین اس جھیل کے ذریعے ترکی اور پھر وہاں سے یورپ داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
27 جون کو ڈوبنے والی کشتی میں 60 دیگر افراد کے ساتھ مہدی محسن بھی موجود تھے جن کی عمر اس وقت محض 17 سال تھی۔
پاکستان کے شہر کھاریاں کے رہائشی مہدی کے دکھی والد نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے بہتر مستقبل کے لیے گھر چھوڑ دیا تھا۔
شفقت محسن نے پاکستان سے فون پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سانحے کے بعد ان کی اہلیہ بمشکل بستر سے اٹھ پاتی ہیں۔
’وہ ساری ساری رات روتی رہتی ہیں اور اچانک مجھے یہ سوچ کر دروازہ کھولنے کے لیے کہتی ہیں کہ ہمارا بیٹا گھر واپس لوٹ آیا ہے۔‘
شفقت نے اپنے بیٹے کو جانے سے روکنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن آخر کار وہ مہدی کی ضد کے سامنے ہار گئے۔
انہوں نے کہا: ’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ اتنا خطرناک ہے تو میں اسے کبھی بھی جانے نہ دیتا۔‘
2015 میں تارکین وطن کے بحران کے دوران ترکی سے یورپ تک رسائی آسان تھی تاہم اس کے بعد سرحدیں عبور کرنا مشکل سے مشکل تر بنتا چلا گیا۔
تارکین وطن کے سیلاب کو روکنے کے لیے انقرہ اور برسلز نے 2016 میں مائیگریشن کے ایک معاہدے پر دستخط کیے لیکن ترکی میں معاشی بحران کے پس منظر 2018 میں ان اقدام کو مزید سخت کر دیا گیا۔
ترکی میں پہلے ہی 40 لاکھ تارکین وطن موجود ہیں جن میں سے 36 لاکھ صرف جنگ زدہ ملک شام سے ہیں۔
'میں نے دعا کرنا شروع کردی'
جھیل تک پہنچنے سے پہلے تارکین وطن کو اکثر خطرناک سرحدی پہاڑوں کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ ہر سال برف پگھلنے کے بعد دیہاتیوں کو اس علاقے سے منجمد لاشیں ملتی ہیں۔
ایران سے متصل ترک صوبہ وان میں ان تارکین وطن کی تدفین کے لیے دو قبرستان قائم کیے گئے ہیں جن کی شناخت ممکن نہیں ہو پاتی۔
ایک قبرستان میں تازہ کھودی گئی قبریں اگلے متاثرین کی منتظر ہیں۔
جب موسم خوشگوار ہوتا ہے تو جھیل بے ضرر دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا غیر متوقع اتار چڑھاؤ چھوٹی چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔
25 سالہ پاکستانی شہری محمد نے بھی مارچ کے اوائل میں ایک خستہ حال کشتی میں رات کے وقت جھیل کو عبور کیا تھا۔
استنبول سے محمد نے اے ایف پی کو بتایا: ’جہاز میں تقریبا 50 افراد سوار تھے اور صرف پانچ کے پاس لائف جیکٹس تھیں۔ کشتی سواروں میں خواتین اور بچے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر کشتی ڈوب گئی تو ہم کیا کریں گے۔‘
جب کشتی کو لہریں اچھالنے لگیں تو میں نے دعا مانگنا شروع کردی۔ میں نے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو دیکھا کہ ہر شخص خوفزدہ تھا۔‘
تین ماہ قبل تارکین وطن کو لے جانے والی ایک اور کشتی حادثے کا شکار ہو گئی جس میں سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جون کے مہلک حادثے کے بعد سکیورٹی سروسز نے متعدد انسانی سمگلروں کو حراست میں لیا۔ تب سے تارکین وطن اور رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس جھیل سے گزرنے والے راستے سے آمد و رفت کم ہو گئی ہے۔
'میرے پاس کوئی چارہ نہیں'
تارکین وطن جو کشتی پر سوار نہیں ہو سکتے وہ کئی کئی دن مسلسل زمینی راستوں پر چلتے ہیں اور چوکیوں سے بچنے کے لیے کھیتوں سے چھپ کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وان کے مغرب میں 140 کلومیٹر دور واقع شہر تتیوان کے ایک بس سٹیشن پر تقریبا 20 تھکے ماندے لوگ زمین پر بیٹھے ہیں ان کے پھٹے ہوئے جوتے ان کے سامنے پڑے ہیں۔
خطرات کے باوجود ان میں سے کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عراق سے تعلق رکھنے والے ایک کرد شخص محمود نے کہا: ’میرے والد بیمار ہیں۔ میں یورپ میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ خطرناک ہے، مجھے بھوک اور ٹھنڈ لگی ہے لیکن میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
وان بار ایسوسی ایشن میں مائیگریشن کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل مہوت کاکن نے کہا کہ 2018 میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی مقامی برانچ کی بندش کے بعد وان میں مرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اب پناہ کی درخواستوں کو ترک حکام دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ طویل اور مشکل طریقہ کار تارکین وطن کے لیے غیر یقینی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
بہت سے خطرات کا سامنا کرنے والے کچھ پناہ گزینوں نے قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے دیگر ذرائع سے یورپ داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے عباس کا کہنا تھا: ’ہم نے سمگلر سے رابطہ کیا تھا کہ وہ ہمیں یونان لے جائے گا۔ لیکن میں نے اپنی بیوی اور اپنے بچے کی زندگی کے لیے (وان میں) رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ سفر بہت خطرناک تھا۔‘
انہوں نے یورپ کا سفر کرنے کے لیے پناہ گزینوں کی حیثیت سے درخواست دی ہے۔