1960 میں پاکستانی فلم ’سہیلی‘ ریلیز ہوئی تو اس کے ایک گانے نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ نسیم بیگم کے گائے ہوئے اس گیت کے بول تھے:
ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے
کیا کیا ہوا دل کے ساتھ مگر تیرا پیار نہیں بھولے
بس اگر کسی نے این آر او کو سمجھنا ہے تو یہ گانا سمجھ لے۔ این آر او میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن پر آئین سے انحراف کرنے اور ملک کو نقصان پہنچانے کا الزام ہوتا ہے، ان کی ہر بات بھول کر صرف پیار یاد رکھا جاتا ہے۔ اسی پیار سے انہیں ڈرائی کلین کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں، جو ہوا سو ہوا، اب پرانی باتوں پر مٹی ڈالو اور جو کرنا ہے وہ کرو۔
ہماری قوم کو جتنا اچھا یہ گانا لگتا ہے اتنا ہی اچھا این آر او بھی لگتا ہے۔ ہم اجتماعی طور پر ایک دوسرے کو این آر او دینے والے لوگ ہیں۔ چاہے اس کا نام این آر او ہو یا نہ ہو، لیکن بنیادی طور پر ہمارا کلچر ہی یہی بن گیا ہے کہ ہم اپنے فائدے کے لیے دوسروں کی بڑی بڑی خطاؤں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور یوں جزا اور سزا کے نظام کی ایسی تیسی کر دیتے ہیں۔
اصل این آر او کے بانی مشرف صاحب سے ہی شروع کرتے ہیں۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور اپنے عزیز ہم وطنوں سے کہا کہ بس اب بہت ہو گیا، اب ملک کے معاملات میں چلاؤں گا اور سارے ملک دشمنوں کو سخت سزا دوں گا۔
لیکن چونکہ مشرف صاحب نے ملک کے آئین کو معطل کر کے ایک غیر آئینی کام کیا تھا، اس لیے اپنے عمل کی توثیق کے لیے ضرورت تھی ایک ان آر او کی جو یہ کہہ سکے کہ مشرف صاحب کوئی بات نہیں، ہم بھول گئے رے ہر بات۔
مشرف صاحب نے پہلے قوم سے خطاب کیا اور انہیں سمجھایا کہ کیوں ان کا غیر آئینی قدم ضروری تھا اور کیوں قوم کو چاہیے کہ وہ یہ بات بھول جائے۔ اس کے بعد انہوں نے صدر رفیق تارڑ سے ملاقات کر کے یہ سمجھایا کہ جناب اتنا ناراض ہونے کی ضرورت نہیں، قومی این آر او میں نے لے لیا ہے، اب جو کچھ میں نے کیا اسے آپ بھی صدارتی این آر او سے نواز دیں۔ ویسے اگر نہیں بھی دیں گے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اس کے بعد پرویز مشرف نے سعودی عرب کی راہ لی۔ سعودی حکمرانوں سے ملاقات کر کے سعودی این آر او لیا اور ساتھ ہی ساتھ عمرے کا فریضہ سرانجام دے کے کر قوم کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ واپسی پر آتے ہوئے میں اپنے لیے ایک مذہبی این آر او بھی لا رہا ہوں، ٹھیک ہے نا؟
اس کے بعد مشرف صاحب نے عدالت میں موجود ججوں سے کہا کہ جس آئین کے تحت آپ لوگ کام کرتے تھے، وہ تو میں نے کر دیا ہے معطل۔ اب آپ لوگ جلدی جلدی نئے سرے سے حلف اٹھا کر مجھے این آر او دے دیں، مجھے اور بھی ضروری کام ہیں۔ اس پر کچھ جج مانے، کچھ نہ مانے۔ دونوں طرح کے ججوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ساری دنیا جانتی ہے۔
بہرحال، یہ تو وہ این آر او تھے جو مشرف صاحب نے لیے۔ اب جو این آر او انہوں نے دیے، انہیں بھی یاد کرنا ضروری ہے۔ نواز شریف صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے مشرف صاحب کے طیارے کو پاکستان میں اترنے کی اجازت نہ دے کر ملک سے غداری اور اقدام قتل، دونوں کام ایک ساتھ کر دیے۔
مشرف صاحب تو کافی غصے میں تھے لیکن پھر برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور برادر غیر اسلامی ملک امریکہ نے انہیں سمجھایا کہ چھوڑو بھائی رہنے دو، کیوں بات بڑھاتے ہو، جانے کی باتیں جانے دو! تو بس پھر مشرف صاحب نے نواز شریف کو جانے دیا۔
اسے بھی ایک طرح کا این آر او ہی کہیں گے کہ مشرف صاحب نے ہر بات بھول کر صرف وہ پیار یاد رکھا جو نواز شریف صاحب نے انہیں فوج کا اعلیٰ ترین عہدہ دے کر دکھایا تھا۔ سب سے بڑا این آر او آیا 2007 میں جب مشرف صاحب کی چہیتی پارٹی مسلم لیگ ق کا اقتدار ختم ہونے کے قریب تھا تو مشرف صاحب نے کئی ہزار سیاست دانوں اور بیوروکریٹ افسران پر بنے بڑے بڑے مقدمے ایک آرڈیننس کے ذریعے ختم کر دیے اور قوم سے کہا کہ سب بھول جاؤ بس۔
پیار بھرا یہ گیت جن کے لیے گایا گیا ان ستاروں میں شامل تھے آصف علی زرداری، بےنظیر بھٹو، حاکم علی زرداری، الطاف حسین، رحمٰن ملک، حسین حقانی، جہانگیر بدر، بریگیڈیئر امتیاز، عشرت العباد، فاروق ستار، بابر غوری اور کئی بڑے نام۔
مشرف صاحب کے جانے بعد ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک کے بعد ایک کر کے اقتدار میں آئے اور اپنے اقتدار کے دوران اپنی مخالف پارٹی کی اصلیت عوام کے سامنے لاتے رہے۔ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے اور مقدمات بھی بنائے گئے۔ اور ہاں۔ اسی دوران ایک اور این آر او ہوا۔ نواز شریف کے دور حکومت میں ہی عدالتوں نے پرویز مشرف سے کہا کہ جناب آپ بیرون ملک جائیں اور علاج کروا کر واپس آئیں، آپ پر جوغداری اور قتل وغیرہ کے مقدمے ہیں وہ واپسی پر دیکھ لیتے ہیں۔
نواز شریف کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا اور پیپلز پارٹی نے بھی بےنظیر بھٹو کے قتل والے معاملے پر نظریں ادھر ادھر کر لیں۔ بس پھر پرویز مشرف نے بھی کہہ دیا کہ ویسے تو میں کمانڈو ہوں لیکن ابھی کچھ بیمار شیمار ہوں اس لیے عدالت کی بات ٹھیک ہے۔ بس میں یوں گیا اور علاج کروا کر یوں واپس آیا۔ 2016 سے قوم ان کی واپسی کی راہ تک رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے پر کرپش کے الزامات لگاتے نہیں تھکتے تھے کہ 2018 کا الیکشن آ گیا۔ پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی اور عمران خان نے وزیر اعظم بن کر یہ اعلان کر دیا کہ وہ اب پیپلز پارٹی اور ن لیگ مین سے کسی کو این آر او نہیں دیں گے لیکن شاید عمران خان کو معلوم نہیں کہ یہ سسٹم این آر او کہ بغیر چل ہی نہیں سکتا۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ، دونوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے پر لگائے جانے والے سارے الزامات بھلائے اور ہاتھ ملا کر ایک دوسرے کو اچانک این آر او دے دیا۔ قوم کو سمجھایا گیا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، اور قوم ظاہر ہے کہ سمجھ دار ہے۔
پھر اسی سسٹم میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی این آر او نہیں دوں گا، نہیں دوں گا کی رٹ لگاتے ہوئے عدالتی احکامات اور بیماری کی رپورٹوں کی وجہ سے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت کچھ ایسے دی کہ مشرف صاحب کا باہر جانا یاد آ گیا۔ اب یونہی تو نہیں کہتے ہیں نا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، تو یہ تاریخی طور پرہونا تھا اور اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس میں خان صاحب کا بھلا کیا قصور؟
عوام اور سرکاری اداروں کی طرف نظر ڈالیں تو سب یہی پیار بھرا گیت گنگناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون ہو یا سانحہ ساہیوال، پولیس کو این آر او حاصل ہے۔ وکلا چاہے ہسپتال تباہ کریں یا لوگوں پر تشدد کریں، این آر او ان کی جیب میں رہتا ہے۔ ملک ریاض کھلے عام فرماتے ہیں کہ اس سسٹم کو کیسے چلانا ہے، یہ مجھے معلوم ہے اور پھر وہی سسٹم ان سے کہتا ہے کہ سر آپ تھوڑا سا جرمانہ جمع کروادیں، وہ بھی قسطوں میں۔ این آر او!
صحافت کے نام پر کئی صحافی جس طرح سے اپنا ایجنڈا فروخت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، انہیں سب جانتے ہیں، مگر کیا کیجیے کہ ان کے پاس بھی آزادی اظہار کا این آر او موجود ہے۔ اور کچھ اداروں کو تو پیدائشی طور پر ایسا این آر او حاصل ہے کہ ان کے تو نام لکھتے ہوئے بھی قلم کانپ اٹھتا ہے۔
عوام کو دیکھیں تو شناختی کارڈ کے لیے کاغذات پورے نہ ہوں یا ڈرائیونگ لائسنس ٹیسٹ دیے بغیر حاصل کرنا ہو، سالانہ ٹیکس کے اعداد و شمار بدلنے ہوں، غیر قانونی تعمیر کی اجازت درکار ہو، یہ سسٹم ہی ایسا ہے کہ آپ کوئی بھی غلط کام کرنا چاہیں، ہر قدم پر آپ کی خطائیں بھلا کر آپ سے محبت کرنے والے لوگ مل جاتے ہیں۔
یقین مانیے ہم سب این آر او لیتے بھی ہیں، دیتے بھی ہی، پسند بھی کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے کیونکہ اس میں ہم سب کا فائدہ ہے۔ جب ایسے سسٹم میں عمران خان اپنی ہر تقریر میں یہ جملہ دہراتے ہیں کہ میں این آر او نہیں دوں گا تو پھر کون انہیں بتائے کہ حضور این آر او تو ہو گا اور سب قبول بھی کریں گے، بس وقت آنے کی بات ہے۔