لاہور کی ایک سیشن عدالت نے منگل کو توہین مذہب کے جرم میں سات سال سے گرفتار ملزم آصف پرویز کو موت کی سزا سنا دی۔
ایڈیشنل سیشن جج لاہورمنصور احمد قریشی نے آصف پرویز کو ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت تین برس قید اور توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا جبکہ ان کی سزا کی روبکار سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل کو بھجوا دی گئی۔
گرین ٹاؤن پولیس نے مجرم کے خلاف توہین مذہب اور توہین مذہب سے متعلق پیغامات بھیجنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، جس کے بعد 2013 میں ان کے خلاف مقدمے کا چالان پیش ہوا۔ اسی سال ملزم کو گرفتار کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا اور یہ کیس اس عرصے کے دوران زیر سماعت رہا۔ عدالت نے دستیاب شواہد اور گواہوں کی روشنی میں آصف پرویز کو موت کی سزا سنائی۔
وکیل صفائی سیف الملوک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاہور کے علاقے یوحنا آباد کے رہائشی آصف اورماسٹر سعید احمد کھوکھر ایک مل میں کام کرتے تھے، جہاں ملزم سعید کھوکھر کے ماتحت تھے۔
وکیل صفائی کے مطابق ملزم نے عدالت میں حلفیہ بیان دیا کہ سعید انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے تھے، تاہم جب آصف نے ان کی بات نہ مانی تو سعید نے تھانہ گرین ٹاؤن میں مقدمہ درج کرایا کہ آصف انہیں مبینہ طور پرتین دن سےتوہین مذہب اور توہین مذہب پرمبنی پیغامات بھیج رہے ہیں۔
وکیل سیف الملوک کے مطابق ایف آئی آر پہلے نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوئی لیکن بعد میں آصف کا نام ڈال دیا گیا، جسےعدالت نے بھی اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ایف آئی آر میں جس قلم سے آصف کا نام درج ہوا، وہ ایف آئی آر کی تحریر والے قلم سے مختلف تھا۔
انہوں نے کہا: 'اس کیس میں بہت سے خلا تھے لیکن اس کے باوجود ملزم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔'
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالت نے پیغامات بھیجنے پر ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت تین سال کی سزا سنائی جبکہ ٹیلی گراف ایکٹ میسجز سے متعلق نہیں، وہ تو لینڈ لائن فونز کے ذریعے کسی کو ہراساں یا دھوکہ دینے سے متعلق ہے۔
وکیل سیف الملوک نے مزید بتایا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف لاہورہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
توہین مذہب سے متعلق قانون کا اطلاق
سیف الملوک کے مطابق دفعہ 295 سی کے تحت یا تو پھانسی کی سزا ملتی ہے یا پھر بری کیا جاسکتا ہے، تیسری کسی سزا کی گنجائش نہیں۔ جس مقدمے میں توہین مذہب سے متعلق دفعہ 295 سی لگادی جائے، عدالت اس میں پھانسی یا بریت کے سوا کوئی اور سزا نہیں دے سکتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس قانون سے متعلق پاکستان میں کئی بار بحث بھی ہوئی ہے کہ اس میں ملزم کو دفاع کا کم حق حاصل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ آسیہ مسیح کیس میں بھی درج ہونے والے مقدمے میں 295 سی کی دفعہ لگائی گئی تھی۔ انہیں بھی سزائے موت سنائی گئی اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپیل پر سماعت کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا۔
اسی طرح ملتان میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کو بھی 295 سی کے تحت پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ ایسےدیگر مقدمات ہیں جن میں توہین مذہب سے متعلق ملزمان کو جرم ثابت ہونے پرپھانسی اور نہ ہونے پر بری کرنے کے فیصلے کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب پراسکیوشن کے وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری نے کہا کہ 'ملزم اپنے جرم سے انکار کرتا رہا اور آصف نے عدالت میں بیان دیا کہ جس فون سے میسجز کیے گئے وہ ان کا نہیں ہے، جس کے بعد اس کا فرانزک کروایا گیا اور لیب کی رپورٹ عدالت میں پیش ہوئی جبکہ سات گواہان کی شہادتیں ریکارڈ ہوئیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'تمام گواہان نے ملزم کے خلاف گواہی دی تو جرم ثابت ہونے پر عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی جبکہ مقدمے کے مدعی نے اپنے الزامات ثابت کیے اور ثبوت بھی فراہم کیے۔'