رواں سال فروری میں جب چند امریکی ہی دور دراز اور عجیب نام والے کرونا (کورونا) وائرس سے آگاہ تھے تب دو چینی فلم ساز حفاظتی لباس پہنے ووہان کے ان ہسپتالوں میں عکس بندی میں مصروف تھے جہاں مریضوں کا بے پناہ رش تھا۔
وہاں انہوں نے ایسی دل دہلا دینے والی ویڈیوز عکس بند کیں جن میں خوف زدہ شہریوں کو ہسپتالوں کے دروازے پیٹتے، طبی عملے کو تھکن سے گرتے اور کرونا سے متاثرہ افراد کے رشتہ داروں کو اپنے پیاروں کو خدا حافظ کہنے کے لیے حکام سے بھیک مانگتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز نیو یارک میں مقیم ڈائریکٹر ہاؤ وو ایڈٹ کر چکے ہیں۔
چینی شہر میں نافذ کیے جانے والے 76 روزہ سخت لاک ڈاؤن کے نام پر بننے والی ڈاکومینٹری 'چھہتر دن' سوموار کو ٹورنٹو فلم فیسٹول میں دکھائی گئی۔ یہ کرونا کے مرکز ووہان کے بارے میں بنائی جانے والی پہلی بڑی ڈاکومینٹری ہے جو تھیٹرز میں پیش کی جا رہی ہے۔ ایک سانحے جیسی صورت حال پر مبنی یہ سنیما سٹائل کی ڈاکومینٹری کے پس منظر میں آواز کا استعمال یا انٹرویوز نہیں کیے گئے۔ اس فلم کا انحصار صرف ڈاکٹروں اور مریضوں کو اس نئی اور اذیت ناک حقیقت سے نمٹنے کی کوشش کرتے دکھاتی ویڈیوز پر ہے۔
وو نے دونوں فلم سازوں سے رابطہ کیا جن میں سے ایک سکیورٹی وجوہات پر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ نئے چینی سال کے دوران اپنے خاندان سے ملنے چین گئے جہاں انہوں نے اپنی آنکھوں سے چین کے لاک ڈاؤن کا مشاہدہ کیا۔ فلم سازوں کی بنائی جانے والی ویڈیوز میں سامنے آیا ہے کہ کس طرح ابتدائی دنوں میں بیماری نے ہر سمت افراتفری پھیلا رکھی تھی اور انہیں تقریباً ہر جگہ تک رسائی حاصل رہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک خطرہ اور مشکلات کا خدشہ بھی لاحق رہا۔
وو نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'ان کے لیے یہ سب عکس بند کرنا بہت اندوہناک تھا، وہ گر رہے تھے اور وہاں بہت گرمی تھی۔ کئی بار تو فلم ساز ویکسی چین کو قے آتے آتے ہی رہ گئی لیکن انہوں نے اسے روک لیا کیونکہ اگر آپ ایک بار حفاظتی لباس اتار دیتے تو آپ کو باہر جانا پڑتا اور آپ پھر اندر نہیں آ سکتے تھے۔ یہ ایک میدان جنگ میں عکس بندی کرنے جیسا تجربہ تھا۔'
اس فلم پر کام کرنے کے لیے وو کے پاس ایک ذاتی وجہ بھی تھی۔ ان کے دادا اس وبا کے بعد کینسر سے وفات پا گئے تھے اور کووڈ 19 کی وجہ سے ہسپتالوں میں رش ہونے کے باعث انہیں ہسپتال میں جگہ نہیں مل سکی تھی۔ وو کا کہنا ہے: 'شروع میں مجھے چینی حکومت پر غصہ تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا یہ کس کی غلطی ہے۔ یہ کس وجہ سے شروع ہوا، لیکن جب وبا پھیل گئی تو یہ ایک بڑی مصیبت میں تبدیل ہو گئی۔ دوسرے ملک جیسے کہ امریکہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے تو الزام عائد کرنے کی خواہش اس بات میں تبدیل ہو گئی کہ 'بطور انسان اس سب صورت حال سے گزرنے کا تجربہ کیسے دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹا جائے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حیران کن طور پر چین کے ذرائع ابلاغ پر سخت کنٹرول کے باوجود رسائی حاصل کرنا کہیں آسان تھا۔ وو کے مطابق نیو یارک کے ہسپتالوں میں عکس بندی کرنا قانونی طور پر زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ آغاز میں ووہان کے ہسپتالوں نے حفاظی لباس نہ ہونے کے باعث کوریج کو خوش آمدید کہا، ایسا کر کے وہ امدادی سامان اور رضاکاروں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔
یہ فلم الزامات اور سیاست سے زیادہ انسانی جذبات، بہادری، مایوسی اور امید پر توجہ مرکوز کرتی ہے جو چین کے بعد پوری دنیا میں دہرائی گئی۔ طبی عملہ اپنے اہل خانہ سے دور رکھے جانے والے مریضوں کے ہاتھوں کو تھام کر انہیں حوصلہ دیتا ہے اور دونوں حفاظتی لباس میں ملبوس ایک دوسرے سے سر ٹکرا کر اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا یہ فلم چین میں بھی دکھائی جا سکے گی، جہاں وبا کے حوالے سے خبروں کو پہلے دن سے کنٹرول میں رکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مغرب میں بشمول صدر ٹرمپ چین پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ وبا کی صورت حال کو چھپا رہا ہے۔
وو کا کہنا تھا: 'مجھے اسے چین میں دکھا کر خوشی ہو گی کیونکہ میرے خیال میں کووڈ 19 نے پورے ملک کی نفسیات پر اثرات مرتب کیے ہیں، زیادہ تر چینی اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ملک نے اس پر قابو پا لیا ہے، لیکن یہ ایک نفسیاتی صدمہ بھی ہے۔'