سیاسی بیانیہ: کیا جھوٹ کیا سچ؟

تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب کہنہ مشق سیاست دانوں نے جھوٹے بیانیہ سے حکومت حاصل کی اور پھر بربادی کے ان واقعات نے جنم لیا جس نے بعض دفعہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہٹلر اور مسولینی فاشسٹ بیانیے کے ماہر تصور کیے جاتے تھے۔

نوجوان طلبہ کو آئین اور حکومت کے بارے میں تعلیم دینی چاہیے۔ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کی طلبہ کا قومی اسمبلی کے دورے کے موقع پر گروپ فوٹو (پی آئی ڈی)

دسیوں سے بارہویں جماعت کے طلبہ کو آئین اور حکومت کی ساخت پر تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ وہ ایک جمہوری شہری بن سکیں اور ریاست کے کام کو بھی سمجھ سکیں۔

سیاست دانوں کا سب سے اہم اوزار ان کے الفاظ ہیں۔ انہی الفاظ کے استعمال سے بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ پالیسیوں اور نظریات کے لیے عوام کی حمایت حاصل کی جائے۔ بیانیہ جب جھوٹ اور فرضی حقائق پر مبنی ہو تو اسے عرف عام میں پروپیگینڈا کہا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد عوام کو دھوکا دینا ہوتا ہے۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب کہنہ مشق سیاست دانوں نے جھوٹے بیانیہ سے حکومت حاصل کی اور پھر بربادی کے ان واقعات نے جنم لیا جس نے بعض دفعہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہٹلر اور مسولینی فاشسٹ بیانیے کے ماہر تصور کیے جاتے تھے۔

کئی ملکوں میں آج کل بھی جھوٹے بیانیے کی بنیاد پر حکومتیں قائم ہوئیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ پائیدار بیانیہ وہ ہے جو حقائق پر مبنی ہو۔ ملکوں کی تقدیر ان سیاست دانوں نے بدلی جو سچ اور حقیقت پر مبنی بیانیے پر عوام کا مینڈیٹ لے کر حکومت میں آئے۔

اب ذرا اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں کے بیانیے پر نظر ڈالتے ہیں۔ تحریک انصاف نے تبدیلی کا بیانیہ دیا مگر 2013 سے 2018 تک انہوں نے کبھی اس کی تشریح نہیں کی کہ تبدیلی کا مطلب کیا ہے۔ جب بھی ان سے وضاحت طلب ہوئی انہوں نے یہی وضاحت دی کہ دوسرے بڑے کرپٹ ہیں اور جب ایماندار حکومت میں آئیں گے تو کایا پلٹ جائے گی۔ لیکن جب حکومت میں آئے تو پتہ چلا کرپٹ ان کے گرد جمع ہیں اور تبدیلی صرف چہروں کی ہے۔

نہ ان کے پاس کوئی قابل عمل پالیسیاں ہیں اور نہ ایک باصلاحیت ٹیم۔ عمران خان یہ بھی نعرہ لگاتے رہے این آر او نہیں دوں گا لیکن اب تک نہ صرف حزب اختلاف بلکہ اپنے دوستوں اور چندہ دینے والوں کو بھی ڈیلیں دے رہے ہیں۔ عوام کو ان کے بیانیہ کی حقیقت معلوم ہو چکی ہے اور خوابوں کے بکھرنے سے جو مایوسی ہوتی ہے وہی آج کل پاکستانی عوام محسوس کر رہے ہیں۔ 

مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہمیشہ یہ رہا کہ موٹر وے اور ترقیاتی منصوبے تمام مسائل کا حل ہیں۔ ڈیل نہیں لیں گے بھی اس بیانیہ کا حصہ رہا مگر وہ کبھی قوم کو قائل نہ کر سکے کہ پہلے مشرف اور پچھلے سال جنرل قمر باجوہ سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ عوام کا شک اس وقت مزید گہرا ہوا جب ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو پزیرائی ملی مگر میاں نواز شریف کے ملک سے جاتے ہی ووٹ کی عزت کا مسئلہ ختم ہو گیا۔

نہ صرف یہ بلکہ ان قوانین کو پارلیمان میں ووٹ  بھی دیئے جن سے مستقبل میں ووٹ کو عزت ملنے کا موقع مزید کم ہوگا۔ مسلم لیگ ن اس میں مکمل ناکام رہی کہ عوام کو قائل کر سکے کہ وہ کرپٹ نہیں ہے۔ یہ ان کی ناکامی ہے اور اس کا خمیازہ ان کی پارٹی اور یہ ملک بھگتے گا۔

پیپلز پارٹی کا بیانیہ ہمیشہ سے یہ رہا کہ وہ غریب اور مزدور کی پارٹی ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان پاکستان کی تاریخ کا سب سے کامیاب سیاسی نعرہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر کی ’شہادت‘ کو بھی اس پارٹی نے سیاسی مفاد کے لیے خوب استعمال کیا۔ مگر اب شاید اس بیانیہ کی مدت پوری ہو چکی۔ عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ غریب کے اکاؤنٹ صرف منی لانڈرنگ میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان اکاؤنٹس سے ان کی اپنی بھوک نہیں مٹ سکتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی کی تباہی کی ذمہ داری بھی پیپلز پارٹی کے کندھوں پر ہے۔ لیاری کی سیٹ پر الیکشن ہار میں کچھ کمال سیاسی انجینرنگ کا بھی ہے مگر عوام بھی کافی بیزار تھی۔ پیپلز پارٹی کا سوشل ایکشن پروگرام ضرور اچھا ہے لیکن ساتھ ساتھ کرپشن کے الزامات بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس پارٹی نے ملک کو موجودہ آئین دیا مگر یہی پارٹی پچھلے چار سال سے جمہوریت کی جڑیں کاٹ رہی ہے جس کا آغاز بلوچستان سے ہوا۔

جماعت اسلامی میں بہت سے خوبیاں ہیں مگر ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ جس شریعت کی بات کرتے ہیں اس پر کبھی کسی نے ان سے گہرا مکالمہ نہیں کیا۔ مولانا مودودی خود اس بات کا اظہار اپنی کتابوں میں کر چکے ہیں کہ قدامت پسندی کو چھوڑنا اور ماضی سے قوم کو باندھ دینا اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مولانا کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے۔  مگر اپنے سیاسی فیصلوں میں انہوں نے خود اپنے ان نظریات سے تضاد کیا۔ جماعت اسلامی کو تیونس اور ترکی کی اسلامی جماعتوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنا بیانیہ بہتر بنائیں۔ مولانا فضل الرحمان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی قابل عمل بیانیہ نہیں ہے۔ حکومت بدلنے کی خواہش کو بیانیہ نہیں کہا جاسکتا۔

فوج کا بھی ایک بیانیہ ہے۔ فوج کہتی ہے سیاست دان کرپٹ اور نااہل ہیں۔ مگر دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح جو سیاست دان ان کا حامی ہو جائے وہ محب وطن بھی ہے اور ایماندار بھی۔ فوج یہ بھی کہتی ہے کہ کسی کرپٹ سیاست دان کے ہاتھ میں ملک کا مستقبل نہیں دیا جاسکتا لیکن جس بھی ایمان دار کو وہ لے کر آئے اس نے زیادہ تباہی مچائی۔

پچھلے دو سال میں ہم نے بھی آپ کو کئی بیانیہ دئے۔ 2018 کے الیکشن کے چھ ماہ بعد ہمارا پہلا بیانیہ یہ تھا کہ یہ حکومت نااہل ہے اور اس میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہم نے پی ٹی آئی کو چیلنج بھی دیا کے وہ ہمیں غلط ثابت کریں۔ ہمارا دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ موجودہ نظام اب کسی کام کا نہیں رہا اور جمہوریہ کو نئی بنیادوں پر تعمیر کرنا ہوگا۔ ابھی تک قوم مکمل اس پر متفق نہیں ہوئی مگر آہستہ آہستہ لوگ قائل ہو رہے ہیں اس لیے کہ یہ بھی حقائق پر مبنی ہے اور تحقیق کے بعد پیش کیا ہے۔

چند ماہ پہلے ہم نے قوم کے سامنے بیانیہ رکھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی صرف دکھاوے کی حزب اختلاف جبکہ حقیقت میں یہ حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں اور انہیں ایک پیج پر لانے والے سیاسی انجینرز ہیں۔ آج یہ بات بھی پوری قوم تسلیم کرتی ہے اس لیے کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ موجودہ سیاسی بحران کا حل بھی ہم نے قوم کے سامنے رکھ دیا ہے جو  قومی سیاسی مذاکرات کرنے پڑیں گے۔

ایک دوسرے پر رکیک الزامات پوری سیاست کو بدنام کرتے ہیں۔ مقابلہ بیانیہ کا ہونا چاہیے اور پھر عوام ایک صاف اور شفاف الیکشن میں فیصلہ کریں کے کون سا بیانیہ انہیں زیادہ پسند ہے۔ جب تک ہم یہ روایت نہیں ڈالتے اس ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔

اس تحریر میں دی گئی رائے صاحب مضمون کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔  

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ