پاکستان میں عدالتی فیصلوں پر عوامی رائے حق میں یا خلاف ہونا معمول کی بات ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کے ایک دوسرے پر الزامات سے پورے ادارے کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔
پاناما پیپرز میں ایک آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر کے طور پر نام سامنے آنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فرخ عرفان نے ریٹائرمنٹ میں ایک سال باقی ہونے کے باوجود اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
سوشل میڈیا پر عام ہونے والے 7 صفحات پر مشتمل استعفے میں درج وجوہات سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں میں تناؤ کا تاثر ابھرتا ہے۔
اس تاثر کو اُس وقت مزید تقویت ملی جب ایک کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ لاہور ہائی کورٹ نہیں جہاں شور مچا کر حق میں فیصلہ لیا جاسکتا ہے ۔
بعض حلقے اس استعفے کو موجودہ سیاسی صورتحال سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
جسٹس فرخ عرفان کے خلاف ججوں کا احتساب کرنے والے فورم سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس بھی زیر سماعت ہے۔
کونسل میں جسٹس فرخ عرفان کے وکیل حامد خان نےانڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ان کے موکل پر الزامات بے بنیاد اور غیر قانونی ہیں اور وہ بے گناہ ثابت ہوں گے۔
جسٹس فرخ نے اپنا استعفیٰ ایوان صدر بھجوایا ہے لیکن اسے منظور یا مسترد کرنے کے حوالے سے تاحال کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔
انہوں نے اپنے استعفے میں جو اہم وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سخت مایوسی اور غصے کی کیفیت میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں ۔
انہوں نے لکھا ’مجھے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں کام کرنے سے زبردستی روکا گیا لہذا میرے پاس کوئی چارہ نہیں کہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاؤں ۔
جسٹس عرفان کے بقول ان کا جرم یہ ہے کہ وہ اعلیٰ عہدے پر موجود کسی شخص کے بیٹے، داماد، بھائی، بھانجے یا بھتیجے نہیں اور نہ کسی ایسی برادری، گروپ، گروہ یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی ’غیر قانونی‘ کارروائی سے بچائیں۔ ’میرا جرم یہ بھی ہے کہ اس نظام میں میرا کوئی ’گاڈ فادر‘ بھی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بطور جج اپنے کیرئیر کے دوران انہوں نے 29 ہزار کیسوں کے فیصلے بلا کسی خوف اور لالچ کیے۔
جسٹس فرخ عرفان کے خلاف 2016 میں مبینہ طور پر آف شور کمپنی کے ذریعے بیرون ملک جائیداد بنانے پر ریفرنس دائر کیا گیا۔ ان کی آف شور کمپنی کا انکشاف پاناما لیکس سے ہوا، جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نااہل قرار پائے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں فروری 2017میں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے پہلی بار کونسل میں طلب کیا تھا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل آئین پاکستان کے آرٹیکل 209کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کی بنیاد پر کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔
جسٹس فرخ نے اپنے استعفے میں لکھا تھا کہ جب وہ کونسل میں پیش ہوئے تو اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کونسل کی سربراہی کر رہے تھے۔
مستعفی جج کے مطابق انہوں نے کونسل میں موجود ایک سینئر جج اور موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر اعتراض کیا تو جسٹس ثاقب نثار برا مان گئے اور کہنے لگے ’آپ نے ہمارے سینئر ممبر کی توہین کی ہے، آپ کو رعایت کیسے دی جائے۔ اسی معاملہ پر سابق اور موجودہ چیف جسٹس نالاں ہو گئے جس کے بعد انہیں انصاف کی توقع نہیں رہی۔
حامد خان کے مطابق جسٹس فرخ عرفان کے خلاف ریفرنس میں ایف بی آر نے جو ریکارڈ جمع کرایا اُس کے مطابق انہوں نے آف شور کمپنی کے ذریعے بیرون ملک خریدی گئی جائیداد کے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے جبکہ آف شور کمپنی پاناما حکومت کی جانب سے ٹیکس سے مستثنی ہونے کی وجہ سے ٹیکس گوشواروں میں درج کرنے کی قانونی حیثیت نہیں۔
سابق جسٹس ناصرہ جاوید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں زور دیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر نظام عدل کی توقیر کے لئے سوچنا چاہیے ۔
’ججوں کے ایک دوسرے پر الزامات سے عوام کا نظام عدل پر اعتماد کم ہوتا ہے جس کا نقصان ریاست کو اٹھانا پڑتا ہے۔ انصاف اور قانون کی بالادستی کے لئے ذاتی نوعیت کے معاملات کو زیادہ ہوا دینا مناسب نہیں ججوں کے بجائے ان کے فیصلے بولنے چاہئیں۔‘
صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن لاہور حفیظ الرحمٰن چودہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں میں جاری تناؤ کے باعث سائلین اور وکلاء کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔’ دونوں فورم انصاف کے لئے ہیں اس لئے کسی جج کو دوسرے کے فیصلوں پر تنقید نہیں کرنی چاہئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس فرخ عرفان نے اپنے استعفیٰ میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان پر جو الزامات لگائے وہ نامناسب ہیں۔ وہ اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری ریفرنس کے بارے میں وہیں رائے دیتے۔