سردیوں کی آمد آمد ہے اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور ماہرین موسم سرما کے دوران پاکستان میں قدرتی گیس کی کمی کی پیشگوئی کر رہے ہیں، جو عام شہریوں کے علاوہ صنعتی حلقوں میں بھی تشویش کا باعث بن رہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں وفاقی حکومت کے زیر اہتمام ایک کانفرنس سے خطاب میں قدرتی گیس کے شعبے میں وسائل کی کمی اور گردشی قرضوں میں اضافے جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے موسم سرما میں گیس کی قلت کی طرف اشارہ کیا تھا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کے مطابق: ’قدرتی گیس کی قلت صوبہ سندھ میں زیادہ تشویش ناک ہوسکتی ہے اور حکومت کے پاس کراچی جیسے بڑے شہر میں گیس راشننگ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔‘
گیس راشننگ کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گھریلو صارفین کو گیس صرف کھانا پکانے کے اوقات میں میسر ہوگی جبکہ کارخانوں میں بھی کفایت شعاری کی روش کو اپنانا پڑے گا۔
بزنس مین اینڈ انٹیلیکچول فورم کے سربراہ اور سابق وزیر سندھ میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ گیس کی قلت سے پورا ملک متاثر ہو گا۔ ’آنے والی سردیاں بہت سخت ہونے جا رہی ہیں، عام عوام اور صنعت کار دونوں متاثر ہوں گے۔‘
گیس بحران کے باعث سردیوں میں گھریلو صارفین ہیٹر اور گیزر جیسی سہولتوں سے محروم رہیں گے۔ گھروں میں گیس صرف تین اوقات میں دستیاب ہو گی وہ بھی اتنی مقدار میں کہ صرف چولہا جلا کر کھانا پکایا جا سکے گا۔
بین الاقوامی ادارہ برائے ماحولیات کی پیشگوئی کے مطابق اس سال موسم سرما میں درجہ حرارت کے اوسط کی نسبت کئی درجے نیچے جانے کا امکان ہے اور ٹھنڈ شدید ہو سکتی ہے۔
گیس کی قلت کے باعث صنعتی پیداوار بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی جس کی وجہ سے برآمدات میں کمی اور ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
گیس گئی کہاں؟
گیس کے شعبے کے ماہر انجینیئر محمد رضی الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور آنے والا وقت اس لحاظ سے مشکل ہو سکتا ہے۔
قدرتی گیس سے متعلق بین الاقوامی ادارے ورلڈ میٹر کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں 2017 تک قدرتی گیس کے ذخائر کا مجموعی حجم 19 کھرب مکعب فٹ تھا جو اس کی سالانہ کھپت سے 12 گنا زیادہ بنتے تھے۔
گذشتہ سال جاری ہونے والی ایک بین الاقوامی رپورٹ میں پاکستان کے قدرتی گیس کے ذخائر کا مجموعی حجم 14.2 کھرب مکعب فٹ بتایا گیا ہے۔
ورلڈ میٹر کے مطابق پاکستان میں ہر سال 14 لاکھ 54 ہزار مکعب فٹ سے زیادہ گیس زمین سے نکالی جاتی ہے جبکہ 14 لاکھ 36 ہزار مکعب فٹ استعمال ہو جاتی ہے۔
سندھ کے سابق وزیر میاں زاہد حسین نے اس مسئلے کی وضاحت کچھ اس طرح کی: ’پاکستان میں ہر سال پانچ سے سات لاکھ نئے گیس صارفین کا اضافہ ہو رہا ہے یعنی ضرورت ہر سال تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ نئے ذخائر کی تلاش بہت سست اور ناکافی ہے۔‘
قدرتی گیس کی قلت کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سات سو ملین مکعب فٹ روزانہ (ایم ایم سی ایف ڈی) کی ضرورت کے برعکس پاکستان میں گیس کی کل پیداوار 340 ملین مکعب فٹ روزانہ ہے جس میں تقریباً آدھی مقدار بیرون ملک سے خریدی جانے والی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی بھی شامل ہے۔
سندھ اور بلوچستان کو قدرتی گیس مہیا کرنے والی کمپنی سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ سندھ میں چھ گیس فیلڈز سے سپلائی معطل ہے جس کی وجہ سے صوبے کو ڈیڑھ سو ملین مکعب فٹ روزانہ قلت کا سامنا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ آنے والے موسم سرما کے دوران کمپنی کو تین سو ملین مکعب فٹ روزانہ کمی کا سامنا ہو گا اور قدرتی گیس کی قلت یقینی ہوگی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا کو گیس مہیا کرنے والی کمپنی سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی (ایس ایس جی پی ایل) کو مجموعی طور پر ساڑھے تین سو ملین مکعب فٹ روازنہ کی قلت کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔
حل کیا ہے؟
قدرتی گیس کی قلت کا مستقل حل نئے ذخائر کی تلاش ہے جو ایک طویل اور مہنگا کام ہے۔
ماہرین کے مطابق گیس کی کمی پر قابو پانے کا فوری حل قدرتی مائع گیس (ایل این جی) کی درآمد ہے۔
میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ پورٹ قاسم پر ایل این جی کے دو ٹرمینل موجود ہیں جبکہ گذشتہ حکومت نے چھ مزید لائسنس بھی جاری کیے تھے جن پر کام سست روی کا شکار ہے، یہ تمام سہولتیں استعمال کی جائیں تو بڑی مقدار میں ایل این جی درآمد کر کے گیس کی قلت کم کی جا سکتی ہے۔
وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل عمر ایوب خان نے گذشتہ روز میڈیا کو بتایا تھا کہ پورٹ قاسم پر موجود ایل این جی ٹرمینلز 12 سو ملین مکعب فٹ روزانہ فراہم کر رہے ہیں، جسے جلد ہی بڑھا کر 1300 ایم ایم سی ایف ڈی کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے صنعت کاروں کے ایک وفد سے ملاقات میں بتایا کہ وفاقی حکومت میں ایل این جی کی درآمد پر کام تیزی سے جاری ہے اور جلد ہی نتیجہ سامنے آئے گا۔
انجنیئیر رضی الدین نے کے خیال میں گیس کی پائپ لائنوں میں چار سو ملین فٹ سے زیادہ گیس ضائع ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں موجود انجنیئیرنگ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی مدد حاصل کر کے گیس پائپ لائنوں کے جوڑوں کو مضبوطی سے بند کیا جائے تو تقریباً پانچ سو ملین مکعب فٹ ضائع ہونے والی گیس کو بہت کم عرصے میں بچایا جا سکتا ہے۔
رضی الدین نے مائع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتوں اور اس کی ٹرانسپورٹیشن کے خرچ کو کم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ قیمتیں کم ہونے کی صورت میں ریستورانوں، ڈھابوں اور دوسرے چھوٹے کاروباروں میں ایل پی جی کا استعمال بڑھ جائے گا، جس سے قدرتی گیس پر دباؤ کم کیا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دے کر بھی قدرتی گیس کے بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔