لاہور میں سکیورٹی اداروں کے خلاف ’نفرت انگیز‘ تقاریر کرنے اور اس کی تائید کرنے پر سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت مسلم لیگ ن کی پوری مرکزی قیادت کے خلاف ایک شہری بدر رشید ولد رشید خان کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔
ان دنوں لندن میں علاج کے غرض سے موجود نواز شریف نے حال ہی میں آل پارٹیز کانفرنس اور پھر ن لیگ کے اجلاسوں سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے علاوہ سکیورٹی اداروں کی سیاسی امور میں مبینہ مداخلت پر سخت تقریریں کی تھیں۔ ان تقریروں کے بعد پیمرا نے ان کے خطاب کی نیوز چینلز پر کوریج پر پابندی عائد کی اور اب ایک شہری نے مقدمہ درج کروا دیا ہے۔
سکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے کے مقدمے میں نواز شریف کے ساتھ ساتھ شاہد خاقان عباسی، راجہ ظفر الحق، سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، مفتاح اسماعیل، خواجہ سعد رفیق، امیر مقام وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی آر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر اور دو سابق فوجی افسروں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم اور عبدالقادر بلوچ بھی نامزد ہیں۔
راجا فاروق حیدر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم ہیں۔ کشمیر کا خطہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ کشیدگی کا سبب رہا ہے اور مسئلہ کشمیر پر دونوں ملکوں میں باقاعدہ جنگوں کے علاوہ آئے روز لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
متحدہ اپوزیشن اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ‘ کے رہنماؤں نے آج میڈیا سے گفتگو میں راجا فاروق حیدر کی نامزدگی پر کہا کہ اس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر راجا فاروق حیدر کے دفتر سے بتایا گیا کہ وہ کل اس حوالے سے باقاعدہ بیان دیں گے۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے سابق ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید کا کہنا ہے کہ ’ملکی سلامتی اور سکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں جو بھی شامل ہوگا اس کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا اور اس معاملے میں اگر وزیر اعظم راجا فاروق حیدر بھی شامل ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک طرف حکومت کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دعوی کرتی ہے اور دوسری طرف وہاں کے وزیر اعظم کے خلاف اس طرح کا مقدمہ درج کرنے سے کشمیریوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچے گی؟
انہوں نے جواب دیا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ فاروق حیدر کا تعقلق ن لیگ سے ہے، وہ اگر نواز شریف یا کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے اداروں کے خلاف بیانات اور مہم کی تائید کریں گے تو قانون کا سامنا تو کرنا پڑے گا اس لیے انہیں خود ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہیے۔
ادھر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف اور ن لیگ کے دیگر قائدین پر مقدمے پر شدید ناپسندیدگی ظاہر کی ہے۔ ’بغاوت کے مقدمے بنانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ نواز شریف کے دور کی باتیں ہیں، تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے سیاست کی شطرنج پر ابھی ہماری چال باقی ہے، نون لیگ پیادے بچائے شاہ اور وزیر کا کھیل ابھی دور ہے، ابھی کھیل شروع ہوا ہے جلدی کیا ہے۔‘
وزیر اعظم کو اس FIR کا کوئ علم نہیں تھا جب میں ان کے علم میں لایا کہ اس طرح ایک FIR ہوئ ہے جس میں نواز شریف اور دیگر لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے انھوں نے شدید ناپسندیدگی کا ااظہار کیا ، ہو سکتا ہے کسی نے کاروائ ڈالنے کیلئے ایسا کیا ہو دیکھتے ہیں۔ https://t.co/uZYnwX2FCR
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) October 5, 2020
لاہور میں شاہدرہ کے رہائشی بدر نے درج کرائے گئے مقدمے میں الزام لگایا کہ ’ن لیگ کے سی ای سی اور سی ڈبلیو سی کے اجلاسوں سے سزا یافتہ مجرم نواز شریف نے خطاب کیا، جس کی ن لیگ کی مرکزی قیادت نے بھی تائید کی۔
ایف آئی ار کے مطابق ’خطاب میں لندن میں بیٹھے شخص نے سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے کے غرض سے نفرت انگیزی پھیلائی، جس کا مقصد ملک کو عالمی سطح پر تنہا کرنا اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھنا ہے۔ ’یہ بھارتی پالیسیوں کی تائید ہے۔ انہوں نے اے پی سی میں بھی ایسا ہی خطاب کیا جس سے ملکی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔‘
پولیس تھانہ شاہدرہ نے نواز شریف، مریم نواز، راجہ ظفر الحق سمیت سی ای سی اجلاس میں شریک ن لیگ کےتمام رہنماؤں کے خلاف 120.120a.120b.121.121a.123a.124.124a153.153a.505کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
مدعی بدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے مقدمہ اس لیے درج کرایا کہ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ وہ اس کے علاوہ مزید کچھ کہنے سے انکار کر رہے ہیں۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار اور سینیئر وکیل حامد خان کے مطابق اس طرح کا مقدمہ پہلی بار درج نہیں ہوا بلکہ گذشتہ کئی دھائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ’ان مقدمات کا مقصد سیاسی قیادتوں کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے اس طرح کی کارروائی اس لیے بے معنی ہے کہ نواز شریف تو نیب کے کئی مقدمات بھگت رہے ہیں، وہ پہلے ہی بیرون ملک ہیں ان کے خلاف جب بڑے مقدمات میں کارروائی چل رہی ہے تو اس طرح کی ایف آئی آر سے انہیں کیا فرق پڑے گا؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ سوالات اٹھانے والوں کے سیاسی جواب دے، اس طرح مقدمہ بازی سے ماحول مذید خراب ہوگا۔
سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری نے کہا کہ دونوں طرف سے حالات کو کشیدہ کیا جا رہا ہے۔ ’ایک طرف بیان بازی سے تو دوسرے طرف قانونی کارروائیوں سے اور اس کے نتائج مثبت نہیں ہوسکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ دونوں طرف کے لوگوں کو معاملہ تحمل سے سیاست کی حد تک رکھنا چاہیے، انتشار کسی کے فائدے میں نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی قائد نوازشریف اور دیگر کے خلاف غداری کے مقدمے کے اندراج کی شدید مذمت کرتے ہیں، غداری کا مقدمہ عمران صاحب کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے، پاکستان کے عوام اپنے مینڈیٹ، آئین اور قومی مفادات سے غداری پر عمران صاحب پر پرچہ پہلے ہی درج کرچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’نوازشریف اور ان کی ٹیم پر غداری کا پرچہ دراصل سلیکٹڈ حکومت کی اقتدار سے روانگی کا پروانہ اور اعلان ہے۔ اس پرچے کا درج ہونا ثبوت ہے کہ ووٹ چور سلیکٹڈ ٹولے کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں، گھبراہٹ اور بھگدڑ شروع ہے۔‘
ادھر ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: 'نواز شریف دراصل الطاف حسین ٹو بن کر اپنے ملک کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، بلکہ یہ الطاف حسین سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ الطاف حسین کبھی ملک کے وزیر اعظم یا کسی بڑے عہدے پر نہیں رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف اپنے ملک اور اس کے اداروں کو دھمکا رہے ہیں۔ یہ ایک مقدمہ تو کچھ بھی نہیں، عوام تو جو سوچ رہی ہے اگر ہم اس کی اجازت دے دیں تو شاید ملک کے اندر انہیں رہنے کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملے۔ ’بھارت کے سہولت کار تو یہ پہلے ہی تھے۔ ابھی تو ملک کے چپے چپے پر موجود تھانوں میں ان کے خلاف ایف آئی آر ہونی ہے کیونکہ عوام کے جذبات اسی طرف ہی جا رہے ہیں۔‘