اقوام متحدہ نے منگل کو ایران پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی وکیل نسرین ستودہ اور دوسرے سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کر دے۔
ان قیدیوں کو کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے پیش نظر جیلیں خالی کرنے کے فیصلے میں شامل نہیں کیا گیا۔اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باچیلے نے ایران میں کرونا وبا کے باعث انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور سیاسی قیدیوں کے بگڑتے ہوئے حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
باچیلے کے دفتر نے کہا کہ ایران نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے فروری میں جیلوں سے قیدیوں کی عارضی رہائی کا نظام متعارف کروایا تھا۔ اس اقدام کا مقصد قیدیوں کی تعداد میں کمی کرنا تھا۔
اس فیصلے سے ایک لاکھ 20 ہزار قیدیوں کو فائدہ پہنچا، تاہم ان میں سے اکثر قیدیوں کو واپس جیل جانا ہے۔ ایرانی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ قیدی جنہیں'قومی سلامتی'کے جرائم میں پانچ برس سے زیادہ مدت کی سزا ہوئی ہے انہیں عارضی رہائی کے فیصلے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ایسی سزا اکثر ان لوگوں کو دی جاتی ہے جنہیں غیرمنصفانہ طور پر حراست میں لیا گیا ہو۔
ان میں انسانی حقوق کے کارکن، وکلا اور دوہری شہریت رکھنے والے افراد، غیرملکی، قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اور دوسرے لوگ شامل ہیں جنہیں اظہار رائے اور دوسرے حقوق سے محروم کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باچیلے نے اپنے بیان میں غصے کا اظہار کیا کہ ایران میں ایسے قیدیوں کو کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے زیادہ خطرے سے دوچار کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا: 'وہ لوگ جنہیں صرف ان کے سیاسی خیالات یا انسانی حقوق کی دوسری سرگرمیوں کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا انہیں کسی قیمت پر قید میں نہیں رکھا جانا چاہیے۔ ایسےقیدیوں کے ساتھ یقیناً زیادہ سخت سلوک نہیں ہونا چاہیے اور نہ انہیں زیادہ خطرے میں ڈالا جائے۔
'میں یہ دیکھ کر پریشان ہوں کہ کووڈ 19 کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کوکس طرح قیدیوں کے مخصوص گروپ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔'
طویل بھوک ہڑتال کی وجہ سے کمزوری کا شکار 57 سالہ ستودہ کو انسانی حقوق کے لیے کام کے الزامات کے تحت مجموعی طور پر 30 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ وہ تہران کی ایون جیل میں ہیں، جہاں سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ باچیلے نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ستودہ کی جان کو خطرہ ہے۔