چھاتی کے کینسر کو شکست دینے کے لیے پرعزم تھا: اعزاز چوہدری

سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ کینسر ہو جانا باعث شرم نہیں، بلکہ اس کا علاج کروا کر اپنی زندگی میں آگے بڑھیں۔

2013 سے 2017 تک پاکستان کے سیکرٹری خارجہ رہنے والے اعزاز چوہدری بھی چھاتی کے کینسر میں مبتلا رہ چکے ہیں (اے ایف پی فائل)

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بتایا ہے کہ انہیں بھی بریسٹ کینسر کا مرض لاحق ہوا جسے انہوں نے شکست دے دی۔

اسلام آباد میں پیر کو چھاتی کے کینسر کی آگاہی کے حوالے سے ایک پروگرام میں صدر مملکت کی اہلیہ ڈاکٹر ثمینہ علوی اور سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے شرکت کی۔ اعزاز چوہدری نے کینسر کے اپنے تجربے کے بارے میں بتایا کہ سات سال قبل انہیں سینے کے بائیں جانب رسولی محسوس ہوئی۔ جب ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ یہ الرجی ہے، اینٹی الرجی کھائیں گے تو ٹھیک ہو جائیں گے، لیکن مہینے بعد وہ رسولی بڑی ہو گئی، اس کے بعد ٹیسٹ کرایا جس کا دو دن بعد رزلٹ آیا۔

اعزاز چوہدری نے بتایا: 'میں دفتر بیٹھا تھا، میرا ڈاکٹر دوست دوڑتا ہوا میرے پاس آیا کہ چلو ہسپتال چلو۔ میں نے اسے کہا کہ میں ایک لیکچر دے لوں پھر چلوں گا، لیکن مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ کینسر ہے اور مجھے اس کو شکست دینی ہے۔ تب مجھے یہ اندازا نہیں تھا کہ یہ چھاتی کا کینسر ہے۔'

انہوں نے کہا کہ جلدی تشخیص واقعی مدد دیتی ہے۔ 'ایک مہینہ تاخیر سے میرا کینسر پہلے سٹیج ایک سے دوسرے سٹیج تک پہنچ گیا، جس کی وجہ سے مجھے ایک کیمو سیشن اضافی کروانا پڑا۔'

انہوں نے کہا کہ چھاتی کا کینسر صرف خواتین کو نہیں مردوں کو بھی ہوتا ہے، مردوں میں یہ کم ہے لیکن ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ ‘اگر کسی خاتون کو چھاتی کا کینسر ہو تو اس پر سماجی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ میں نے اپنا علاج نوری ہسپتال سے کرایا اور وہاں 10 لاکھ کے قریب چھاتی کے کینسر کے علاج ہوتے ہیں۔ وہاں زیادہ مریضوں کی تعداد خواتین کی ہے جن کے ساتھ ان کے گھرانے کے مرد بھی ہوتے ہیں۔'

اعزاز چوہدری نے کہا کہ مردوں کو بھی اس حوالے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 'میں آج یہاں اس لیے آیا کہ بتا سکوں کہ یہ بیماری ہو جانا باعث شرم نہیں بلکہ اس کا علاج کروا کر اپنی زندگی میں آگے بڑھیں۔ لوگ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ نہیں کرنی چاہیے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر ثمینہ نے تقریب میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مریضوں کے لیے فیملی سپورٹ بہت ضروری ہے انہوں نے کہا: 'جب میں 2018 میں صدر ہاؤس آئی تو طے کیا کہ خواتین کے لیے کام کرنا ہے۔ سماجی و ثقافتی دباؤ کے باعث لوگ چھاتی کے سرطان پر بات نہیں کرتے تھے۔ میرا خواتین کے لیے پیغام ہے کہ اگر جلد تشخیص ہو جائے تو چھاتی کے سرطان کا علاج ممکن ہے۔ خواتین کو کہتی ہوں شرمائیں نہیں، اپنے چیک اپ کے لیے ہسپتال جائیں۔'

پمز ہسپتال کی ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ڈاکٹر عائشہ اسہانی نے بتایا کہ ذاتی تشخیص بہت ضروری ہے۔ 'ہر مہینے اپنا جسمانی چیک اپ ضرور کریں تاکہ اگر آپ کے جسم میں کوئی تبدیلی آئے تو اس کی بروقت تشخیص ہو سکے۔'

کیا بریسٹ کینسر کا علاج کرانے سے ماں بننے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے؟

ڈاکٹر عائشہ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ یہ صرف کہانی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں، عورتیں چھاتی کے کینسر کے علاج کے بعد مائیں بھی بنتی ہیں۔ ڈاکٹرعابدہ نے بتایا کہ اگر کینسر جوان لڑکی کو ہو، جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی تو کیموتھراپی کے دوران خواتین کے ماں بننے کے نظام کو مخفوظ کر لیا جاتا ہے تاکہ کیموعلاج سے وہ متاثر نہ ہو سکے۔

کینسر سے ٹھیک ہونے والی ایک خاتون ماریہ نے اس بارے میں بتایا کہ وہ 27 سال کی ہیں اور ڈاکٹر عابدہ کی مدد سے کینسر کو شکست دینے کے بعد اب وہ ماں بننے والی ہیں، اس لیے یہ کہنا کہ چھاتی کے کینسر کے بعد ماں نہیں بن سکتے، غلط ہے۔

ایک سوال جس میں یہ پوچھا گیا کہ کیا علاج کے بعد نسوانی حسن ختم ہو جاتا ہے؟ اس پر ڈاکٹر عائشہ نے جواب دیا کہ علاج کے بعد بال بھی واپس آجاتے ہیں اور جلد بھی فریش ہو جاتی ہے جبکہ ہارمونز کے استعمال سے بریسٹ  بھی دوبارہ آ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صرف فروٹ اور سبزیوں سے علاج ممکن نہیں، ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق علاج ضروری ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت