آغاخان سوم سر سلطان محمد شاہ ایک بار بطور لیگ آف نیشن کے سربراہ جرمنی کے دورے پر گئے۔ وہاں ہٹلر نے ان کے ایک گھوڑے کے بدلے انہیں جرمنی میں تیار کردہ 40 گاڑیوں کی پیشکش کی، مگر آغا خان نے اسے ٹھکرا دیا۔
آغا خان کا خاندان صدیوں سے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی افزائش کے لیے مشہور ہے۔ ویسے تو ان کے گھوڑوں میں ممتاز محل، بہرام، خسرو، مہاراج، طلیار اور زرکاوہ ریس کورس کی تاریخ میں بہت مشہور ہوئے مگر جو شہرت پرنس کریم آغا خان کے گھوڑے ’شیرگر‘ کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے گھوڑے کے حصے میں نہیں آئی۔
شیرگر نے پہلی بار 1980 میں ریس میں حصہ لیا۔ تاہم اسےعالمگیر شہرت 1981 میں اس وقت ملی جب وہ برطانیہ میں منعقد ہونے والی ڈربی ریس کی تاریخ میں دوسرے گھوڑوں کو ریکارڈ مارجن سے پیچھے چھوڑ کر فاتح قرار پایا اور عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ڈربی ریس کی دو سو سالہ تاریخ میں یہ اعزاز اب تک کسی اور گھوڑے کے حصے میں نہیں آیا۔
اس کے بعد شیرگر پےدرپے مقابلے اپنے نام کرتا گیا اور اس سال چھ میں سے پانچ میچ جیت کر سب سے کامیاب گھوڑا قرار پایا۔ البتہ اگلے سال کی نئی سیزن میں شیرگر کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی جس کے بعد پرنس کریم آغا خان نے گھوڑے کو ریس سے ریٹائر کرنے کا فیصلہ کر کے اسے آئرلینڈ میں واقع اپنے فارم ہاؤس بھجوا دیا۔
شیرگر کی آئرلینڈ آمد کی خبر نے اخباروں کی شہ سرخیوں میں جگہ پائی اور تبصرہ نگاروں نے اسے آئرلینڈ کا ’قومی ہیرو‘ قرار دیا۔ اس وقت شیرگر کی قیمت ایک کروڑ پاؤنڈ تھی۔ ریٹائر کرنے کے بعد آغا خان نے اس کے کچھ شئیرز فروخت کیے۔
ڈربی میں اپنی حیران کن کارکردگی کے بعد شیرگر اب نئے گھوڑوں کی افزائش کے لیے سب سے پسندیدہ گھوڑا تھا اور اس سال اس سے لاکھوں ڈالروں کی آمدنی متوقع تھی۔ پھر آٹھ فروری 1983 کا دن آیا۔ رات آٹھ بج کر 30 منٹ پر کچھ نقاب پوش مسلح افراد فارم ہاؤس میں داخل ہوئے اور گھوڑوں کی تربیت پر مامور ایک اہلکار کو یرغمال بنا کر اصطبل میں موجود گھوڑوں میں سے شیرگر کی نشاندہی کروائی اور گھوڑے لے جانے والی مخصوص گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاتے ہوئے انہوں نے فارم ہاؤس کے اس سینیئر ملازم کو بھی اپنے ساتھ لے لیا اور فارم ہاؤس سے 20 میل کے فاصلے پر اس دھمکی کے ساتھ چھوڑ دیا کہ اگر اس نے پولیس کو فون کیا تو اس کے گھر والوں کو مار دیا جائے گا۔ واپسی پر اس اہلکارنے پیرس کے نواح میں موجود ایگلمون میں آغا خان کے ہیڈکوارٹرز سے رابطہ کر کے شیرگر کے اغوا ہونے کا بتایا تو بات حکام تک پہنچ گئی۔
اگلی صبح شیرگر کے اغوا ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ پولیس بڑے پیمانے پر حرکت میں آ گئی۔ ایسے میں اغواکاروں میں سے ایک شخص نے فرضی نام کے ساتھ حکام سے رابطہ کیا اور گھوڑے کے بدلے 20 لاکھ پاؤنڈ تاوان کا مطالبہ کیا۔
دوسری طرف پریس میں افواہیں گردش کرنے لگیں تھیں کہ شیرگر کو مار دیا گیا ہے مگر اغواکاروں نے ایک مقامی ہوٹل میں شیرگر کی تازہ تصاویر چھوڑ کر اس خبر کی تردید کی۔ آغاخان 20 لاکھ پاؤنڈ کے خطیر رقم کا تاوان دینے پر راضی نہ تھے۔ اس کی دو وجوہات تھیں: ایک یہ کہ ایسا کرنے سے مزید گھوڑوں کو تاوان کے عوض اغوا کرنے کا رجحان پیدا ہونے کا خطرہ تھا۔ دوسری یہ کہ شئیرز فروخت کرنے کے بعد اب شیرگر کی ملکیت صرف آغا خان کے پاس نہیں تھی بلکہ 30 سے زائد دوسرے شراکت دار بھی تھے جنہیں کسی ایک فیصلے پر متفق کرنا مشکل امر تھا۔
جب تاوان دینے پر رضامندی ظاہر نہیں کی گئی تو 12 فروری کے بعد اغواکاروں نے تمام رابطے منقطع کر دیے۔ اس کے بعد شیرگر اور اغواکاروں کی کوئی خبر نہیں ملی۔ پولیس نے شیرگر کا سراغ لگانے کے لیے روایتی اور غیرروایتی تمام طریقے آزمائے مگر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
تفتیش پر مامور سینئیر پولیس آفیسر جیمز مرفی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے گھوڑے کا سراغ لگانے کے لیے جادوگروں تک سے مدد لی مگر شیرگر کا کوئی اتا پتہ نہ مل سکا۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ اغوا کے پیچھے آئی آر اے‘ یعنی آئرش رپبلکن آرمی کی تنظیم ہو سکتی ہے جو انگلینڈ سے آئرلینڈ کی آزادی کے لیے سرگرمِ عمل تھی۔ کچھ لوگوں نے اس میں معمر قذافی تک کا نام لیا۔ البتہ کسی بھی تنظیم یا شخص نے باقاعدہ ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اس واقعے کو 16 سال گزر گئے۔ بالآخر 1999 میں جیل میں قید آئی آر اے کے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ شیرگر کا اغوا انہی کی تنظیم نے اپنی کارروائیوں کے لیے فنڈ جمع کرنے کے لیے کیا تھا۔ اس کے مطابق اغواکے بعد شیرگر پریشانی کے عالم میں اپنی ایک ٹانگ تڑوا بیٹھا تھا اور اغوا کاروں کے پاس گھوڑے کی نگہداشت کے لیے کوئی مناسب تربیت یافتہ شخص بھی نہیں تھا۔ اس نے بتایا کہ جب آغا خان کی طرف سے تاوان دینے کی ہامی نہیں بھری گئی تو آئی آر اے نے گھوڑے کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر اغواکے بعد علاقے میں پولیس کی موجودگی اور چھاپے بہت بڑھ گئے تھے، اس لیے انہوں نے اسے مار کر اپنی جان چھڑانے کا فیصلہ کیا اور مشین گن کا برسٹ مار کر لاش کو ایک نامعلوم جگہ دفن کر دیا گیا۔
شیرگر کی باقیات اب تک نہیں مل سکیں لیکن اس کی یاد میں آغا خان نے 1999 میں ’شیرگر کپ‘ ریس کا اجرا کیا جس میں ہر سال یورپ اور مشرقی وسطیٰ سے گھوڑے ریس میں شریک ہوتے ہیں۔