اسے کوئی گزند نہ پہنچے اس لیے اس کے لواحقین احتجاج سےگریز کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ نوجوان ہی ان کے گھر کا واحد سہارا تھا جو گزشتہ دو سال سے لاپتہ ہے۔
اس کے روزگار کی وجہ سے جو تھوڑی بہت غربت کم ہوئی تھی وہ اس کے جانے کے باعث بڑھ گئی۔ صدمے سے اس کے والد بھی چل بسے ،ایک بہن، بیٹی اور چچا نےبھی اس سفر کے دوران دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
بلوچستان کے ضلع نوشکی سے لاپتہ ہونے والے سمیع کے کزن سمیربلوچ نے بتایا کہ وہ 31 اگست 2018 کا دن تھا جب سمیع اپنے آپ میں مگن دوستوں کے ہمراہ پکنک منانے یہاں کے مشہورعلاقے زنگی ناوڑ جارہا تھا کہ اسے راستے میں دوست کے ہمراہ لاپتہ کردیا گیا۔
سمیر کے بقول: سمیع نوشکی میں سماجی اور سیاسی حوالےسے انتہائی متحرک رہتے تھے اور اس وقت بھی وہ ایک سیاسی جماعت کے ضلعی ترجمان کے عہدے پر فائز تھے۔
غربت کا قریب سے نظارہ کرنے والے سمیع علاقے کے غریب طلبہ کو تعلیم سےروشناس کرانے کے لیےعملی کام پر یقین رکھتے تھے اس لیے انہوں نے ایک انگزیزی سکھانے والا سینٹر اور ٹیوشن سینٹر بھی کھول رکھا تھا جہاں مفت تعلیم دی جاتی تھی۔
سمیر نے بتایا کہ سمیع جب بھی ملتا تو اپنے علاقے میں غربت کے حوالے سے بات ضرور کرتا وہ کہتا تھا کہ غربت نے ہم لوگوں کو تباہ کردیا ہے۔ ہم اپنےبچوں کو سرکاری سکول میں بھی تعلیم دینےکے قابل نہیں ہیں۔ ان بچوں کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔
سمیر بلوچ کے مطابق: اس کے عملی کام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس نے دس ہزار ان بچوں کےلیے رکھ لیےہیں جوکتاب ،وردی اور جوتے نہ ہونے کے باعث سکول نہیں جاسکتے۔
جہاں ایک طرف سمیع ایک متحرک سیاسی کارکن تھے وہاں ان کے گھر والوں کا سیاست سے دور کا بھی واستہ نہیں بلکہ انہیں یہ بھی پہلی دفعہ علم ہوا کہ یہاں لوگ لاپتہ بھی ہوتے ہیں۔سمیع کے گھروالے کبھی کسی مظاہرے اور لاپتہ افراد کے کیمپ میں نہیں بیٹھے۔ اس کے بارے میں سمیربلوچ نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتےہیں کہ ان کےکسی بھی عمل سے ان کے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
سمیر نے بتایا کہ سمیع کو بچپن سے کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا اور وہ اکثر کھیلتا تھا۔ اس زمانےمیں پاکستان کرکٹ ٹیم کا فاسٹ بولر سمیع بھی تھا جس سے متاثر ہوکر اس نے اپنا میر احمد سے تبدیل کرکے سمیع رکھ لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سمیع نے غربت کے باوجود تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، اس نےانگریزی ادب میں ماسٹر کررکھاتھا اورپبلک سروس کمیشن سے امتحان کی تیاری میں بھی مصروف تھا۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے باہر اپنی نوعیت کا طویل ترین علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی قائم ہے۔
بلوچستان سےتعلق رکھنے والی سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نے چھ نکات کے عوض وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی تھی جن میں ایک نکتہ لاپتہ افراد کی بازیابی بھی تھا۔
اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی حکومت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی رد عمل دینے کو تیار نہیں تھا۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم متحرک ہے اور اس کے زیر اہتمام اکثر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ اور کراچی میں بھی احتجاجی مظاہرے اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
سمیع کے لواحقین کےمطابق وہ جب بھی حکومتی اداروں سے بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں کہاجاتا ہے کہ صبر کرو لیکن یہ صبر اب دو سال سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔