اکا جان سماوار کا نلکا کھول کر کیتلی میں پانی بھر رہے ہیں جبکہ انگیٹھی کی ہلکی آنچ پر دیگر کیتلیاں یا چائے دانوں میں پانی ابل رہا ہے۔ ابلتے پانی میں زیادہ جوش کی وجہ سے انہی کیتلیوں کے ڈھکن میں سے کچھ سے سبز چائے کے پتے انگیٹھی پر گر کر ’چیش چیش‘ کی آواز بھی کر رہے ہیں۔
یہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کے اکا جان کا قہوہ خانہ ہے، جو بازار کے پرانے قہوہ خانوں میں شمار ہوتا ہے۔ اکا جان کی عمر انگیٹھی کے پیچھے سیٹ پر اور سماوار اور کیتلیوں کے درمیان قہوہ بناتے گزری ہے۔ وہ گذشتہ 20 سالوں سے قہوہ خانہ چلا رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پشاور کا قہوہ اتنا مشہور کیوں ہے تو انہوں نے ہنستے ہوئے اپنے دائیں طرف پڑے سماوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا: ’پشاور کے قہوے میں صرف ایک ہی خاص بات ہے اور وہ یہ کہ اس کے لیے پانی اسی سماوار میں پہلے ابال دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس میں قہوہ بنایا جاتا ہے۔‘
پشاور اور قہوے کا آپس میں گہرا رشتہ ہے اور اسی رشتے میں قصہ خوانی کا بازار خاصا مشہور ہے۔ خیبر پختونخوا میں چائے سمیت مہمانوں کو قہوہ بھی پیش کیا جاتا ہے اور یہ روایت قبائلی اضلاع میں بہت زیادہ ہے۔
شیر عالم شینواری کا تعلق ضلع خیبر سے ہے اور وہ مختلف جریدوں کے لیے ثقافت کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قہوہ خاص کر پشتون روایات سے اب تک جڑا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب سے بہترین قہوہ افغانستان کے باشندے تیار کرتے ہیں اور وہاں پر چائے کا رواج بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔
عالم نے بتایا: ’قصہ خوانی بازار کے قہوے کے ساتھ ایک تاریخ جڑی ہے۔ برصغیر کی تقسیم یعنی 1947 سے پہلے یہ بازار ایک تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا اور ملک کی مختلف جگہوں سمیت بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک سے تاجر یہاں آرام کرتے تھے۔ یہاں یہ تاجر ایک دوسرے کو قصے سناتے تھے اور ساتھ میں قہوہ پیتے تھے اور اسی وجہ سے اس بازار کا نام بھی قصہ خوانی بازار پڑ گیا۔‘
قبائلی اضلاع میں قہوے کا شوق بھی بہت پرانا ہے اور وہاں پر مہمان نوازی میں قہوہ پلانا عام رواج ہے۔ میں نے خود وہاں پر جا کر کچھ گاؤں میں ایسی روایت بھی دیکھی کہ مہمانوں کو قہوے کے ساتھ کچھ میٹھی چیز یا گڑ پیش کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اکا جان نے بتایا کہ اب بھی شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ یہاں قہوہ پینے آتے ہیں اور دن میں 200 سے 300 کیتلیوں کا قہوہ فروخت کیا جاتا ہے۔
پشاوری قہوہ کیسے بنایا جاتا ہے؟
اکا جان نے پشاوری قہوہ بنانے کی ترکیب تو بتائی ضرور لیکن آپ یا کوئی بھی اسی ترکیب کو جب گھر میں اپلائی کرے تو ذہن میں رکھیں کہ گھر کے قہوے کا ذائقہ قصہ خوانی کے قہوہ خانے کے ذائقے جیسا بالکل بھی نہیں ہوگا۔
اکا جان سے میں نے یہی سوال کیا تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے: ’قہوہ بنانے میں ہماری عمر گزر گئی، اس میں ہاتھ کا کمال بھی ہے کہ یہاں کا قہوہ اچھا بنتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے ترکیب بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے پانی کو سماوار میں ابال دیا جاتا اور پھر اس کو کیتلی میں ڈال کر انگیٹی کی آنچ پر رکھ دیا جاتا ہے، کیتلی کی پانی میں ابال آجائے تو اس میں قہوے کے پتے، سبز الائچی اور اگر گاہک چاہے تو چینی ڈال دی جاتی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد انگیٹی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’قہوہ بنانے کی تو بظاہر یہی آسان سی ترکیب ہے لیکن میں نے جیسے بتایا کہ سماوار میں جتنا پانی ابالا دیا جاتا ہے اتنا ہی قہوے کا ذائقہ اچھا بنے گا۔‘
اکا جان سے میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ آپ نے بنانے کی ترکیب میں کچھ چھوڑ تو نہیں دیا جو آپ بتانا نہیں چاہتے، تو انہوں نے کہا کہ یہی آسان سا طریقہ ہے لیکن گھر میں ایسا ذائقہ بالکل بھی نہیں ہوگا۔
قہوے کے پتوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے قصہ خوانی بازار میں موجود چائے کی مارکیٹ سے ’پلانڈو‘ نامی قہوے کے پتے لیتے ہیں جو ویتنام سے برآمد کیے جاتے ہیں اور اس کی قیمت فی کلو آج کل 800 روپے ہے۔
ان کے مطابق برازیل سے برآمد شدہ پتوں کی قیمت 1400 روپے فی کلو جبکہ سری لنکا، بھارت اور کینیا سے بھی چائے کے پتے برآمد کیے جاتے ہے۔
پشاور چائے فروش یونین کے صدر انار گل کے مطابق شہر میں تقریباً 500 چائے خانے ہیں جہاں پر روزانہ قہوے اور چائے ملا کر ہر ایک چائے خانے میں 1200 تک کیتلی چائے پی جاتی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قہوے کی کیتلیاں تین قسم کی ہوتی ہیں جس میں چھوٹی کیتلی 20 روپے کی، درمیانی 35 اور بڑے سائز کیتلی 60 روپے کی ملتی ہے۔