امریکہ میں صدارتی انتخاب کا دن بالآخر سر پر آن پہنچا ہے۔
کرونا (کورونا) وائرس کے اس دور میں جبکہ 93 ملین سے زیادہ امریکی پہلے ہی ووٹ ڈال چکے ہیں، یہاں کچھ کلیدی سوالات ہیں جن پر غور کیا جانا اور ان کے جوابات جاننا ضروری ہے۔
امریکی اپنے صدر سے کیا چاہتے ہیں؟
انتخابات ہمیشہ ایسے ہی ہوتے ہیں جہاں امریکی شہری ملک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس سال تو یہ بات خاص طور پر سچ ہے کیونکہ امریکہ متعدد بحرانوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور دو ایسے امیدواروں کے درمیان انتخاب کرنے جارہا ہے، جن کا وژن بالکل مختلف ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کرونا کیسز میں اضافے کے باوجود وبا کے وجود سے انکار کیا اور ان تمام گورنرز اور ڈیموکریٹس پر تنقید کی، جنہوں نے کرونا سے نمٹنے کے لیے پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی، حتیٰ کہ انہوں نے صحت عامہ کے اصولوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے انتخابی ریلیوں کا انعقاد کیا، جن میں ان کے حامیوں کا ہجوم زیادہ تر بغیر ماسک کے موجود ہوتا تھا۔
دوسری جانب ان کے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن نے کہا کہ وہ ماہرین کے مشوروں پر عمل کریں گے۔ انہوں نے ماسک مینڈیٹ کو آگے بڑھانے کے لیے ملک بھر میں ریاستی اور مقامی عہدیداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا اور کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک پیکج کی منظوری دے۔
ٹرمپ نے نسل پرستی کے خلاف احتجاج کو بنیاد پرستی قرار دیتے ہوئے اپنے سفید فام حامیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے 'امن و امان' کے پیغام پر زور دیا ہے۔دوسری جانب جو بائیڈن نے نظام میں موجود نسل پرستی کا اعتراف کیا اور ایک بڑی جماعت کے صدارتی ٹکٹ کے لیے پہلی سیاہ فام خاتون کا انتخاب کیا۔
یہ دونوں امیدوار موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیات سے لے کر ٹیکس اور وفاقی قانون سازی کے دائرہ کار سمیت ہر معاملے پر الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔
کس کے ٹرن آؤٹ کا نظریہ جیتے گا؟
کرونا وبا کے اس دور میں دونوں جماعتوں نے ووٹرز سے رابطہ کرنے کے لیے بالکل مختلف طرح کے انداز اپنائے۔
ڈیموکریٹس نے بہار کے موسم میں ووٹرز کے دروازے کھٹکھٹانا چھوڑ دیے اور تمام کام ڈیجیٹل اور فون کے ذریعے کیا۔ انہوں نے ستمبر میں ذاتی حیثیت میں دوبارہ محدود رابطے شروع کیے جبکہ ری پبلکنز نے روایتی میدان میں پوری مہم جاری رکھی۔
ری پبلکن پارٹی ان ریاستوں میں اپنے ووٹروں کی رجسٹریشن میں اضافے کی نشاندہی کرسکتی ہے، جہاں سخت مقابلے کی توقع ہے جبکہ ڈیموکریٹس اپنی ووٹنگ کی ابتدائی کامیابی کی نشاندہی کرسکتے ہیں، اس میں نئے ووٹرز کا قابل ذکر اضافہ بھی شامل ہے، لیکن صرف حتمی نتائج ہی کسی ایک حکمت عملی کو درست ثابت کرسکتے ہیں۔
کیا ووٹنگ پر امن ہوگی؟
ہر بڑی پارٹی ووٹنگ کے مقامات پر سرکاری جائزہ کاروں کو تعینات کرسکتی ہے۔ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے جب ری پبلکنز عدالتی حکم کی مدت پوری ہونے کے بعد اس مشق کو استعمال کرسکیں گے، لہذا یہ ایک کھلا سوال ہے کہ منگل کے روز یہ سرکاری جائزہ کار ووٹرز کی نگرانی کرنے یا اہلیت کو چیلنج کرنے میں کتنے جارحانہ ہوں گے۔
اس سے بھی بڑا مسئلہ غیر سرکاری 'رائے شماری کرنے والوں'، خاص طور پر خودساختہ ملیشیاؤں کا ہے۔ ووٹرز کو ڈرانا غیر قانونی ہے، لیکن 29 ستمبر کو ہونے والے صدارتی مباحثے میں ٹرمپ نے واضح طور پر انکار کر دیا کہ وہ انتخابی نتائج کو قبول کریں گے اور اس کی بجائے انہوں نے کہا کہ وہ 'اپنے حامیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں اور بہت غور سے دیکھیں، کیونکہ یہی ہونا ہے۔ میں ان سے گزارش کر رہا ہوں کہ وہ یہ کریں۔'
ریاست مشی گن میں، جہاں حال ہی میں وفاقی حکام کی جانب سے حکومت مخالف نیم فوجی دستوں کے ارکان کو ڈیموکریٹس کے گریچین وائٹمر کو اغوا کرنے کے مبینہ منصوبے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، وہاں کے ڈیموکریٹک سکریٹری برائے ریاست نے پولنگ کے مقامات پر آتشیں اسلحہ لے جانے پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم مشی گن کے ایک جج نے اس حکم کو مسترد کردیا۔
چھوٹے شہروں اور نواحی علاقوں کی صورت حال؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کا انحصار دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں اپنے ووٹوں کے مارجن کو آگے بڑھانے پر ہے۔
لیکن زمین کے ایکڑ ووٹ نہیں ڈالتے، لوگ ڈالتے ہیں اور جو بائیڈن ایک وسیع آبادیاتی اور جغرافیائی جال پھینک رہے ہیں۔ ان کا مثالی اتحاد میٹرو علاقوں میں لنگر انداز ہے ، لیکن انہیں امید ہے کہ غیر سفید فام اور کالج سے تعلیم یافتہ ووٹرز کی وجہ سے جمہوری ٹرن آؤٹ میں بہتری آئے گی۔
لیکن کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں مسابقتی حکمت عملی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ بڑے شہروں کے کناروں پر واقع کمیونٹیز اور چھوٹے شہر۔
1968 اور 1980 کے انتخابات سے موازنہ؟
اس سال 'امن و امان' کے حامی صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ نے کافی توانائی صرف کی اور نسلی ناانصافی اور ملک گیر پرتشدد مظاہروں کو بائیں بازو کے فسادات کہہ کر ہوا میں اڑا دیا اور اسے 'جو بائیڈن کا امریکہ' کہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر کے اتحادیوں نے سن 1968 کی طرف اشارہ کیا، جب ویتنام کی جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر بدامنی اور شورش عام تھی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور رابرٹ ایف کینیڈی کے قتل نے ری پبلکنز کے رچرڈ نکسن کو فائدہ پہنچایا اور انہوں نے اپنی 'خاموش اکثریت' بنائی۔
بہت سے ڈیموکریٹس اور کچھ ریپبلکنز اب 1980 کی طرف توجہ دلارہے ہیں ، جب ریپبلکنز کے رونالڈ ریگن نے صدر جمی کارٹر کو شکست دی اور ری پبلکنز نے ڈیموکریٹکس کی 12 سینیٹ نشستوں پر پانسہ پلٹ دیا۔ 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کی صورت حال کو اگر دیکھا جائے تو جمی کارٹر نے بھی 1980 کے انتخابی سال میں افراط زر، بے روزگاری اور ایران سے متعلق بحران کا سامنا کیا تھا۔
چار دہائیوں بعد سبق یہ ہے کہ اس طرح کے بحرانوں اور ووٹروں کے عدم اطمینان کے باوجود ٹرمپ دوبارہ انتخاب جیت کر تاریخ بدلنے کی کوشش کریں گے۔
کروبا کے دور میں ووٹنگ
کرونا وائرس کی وجہ سے غیر حاضر ووٹنگ نے ووٹوں کی گنتی کی ٹائم لائن کو تبدیل کردیا ہے اور بیلٹس کی گنتی کے لیے یکساں طریقہ کار نہیں ہے۔ اس سے ان مقامات پر نتائج کی پیش گوئی کرنا مشکل ہوجاتا ہے جہاں کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔
مثال کے طور پر ریاست پنسلوانیا اور مشی گن میں، جہاں ٹرمپ نے 2016 میں 1 فیصد سے بھی کم پوائنٹس سے کامیابی حاصل کی تھی، توقع نہیں کی جارہی کہ وہاں فوری طور پر مکمل لیکن غیر سرکاری نتائج آسکیں۔ دوسری جانب فلوریڈا اور شمالی کیرولائنا نے وقت سے پہلے ابتدائی بیلٹس پر کارروائی شروع کردی جبکہ وہاں کے عہدیداروں نے پہلے ہی غیر سرکاری نتائج کی پیش گوئی کی ہے۔
ابتدائی ووٹنگ مختلف نتائج دکھاسکتی ہے۔ جوبائیڈن کے حوالے سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ابتدائی ووٹرز کی توجہ حاصل کریں گے جبکہ ٹرمپ الیکشن کے دن ووٹوں کی برتری حاصل کرسکتے ہیں۔