نوتن کا چہرہ بجھا ہوا تھا، گھر کا ماحول انتہائی تناؤ والا تھا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ بلکہ آنکھیں تو جیسے سوجھ سی گئی تھیں۔
یہ کوئی فلمی سین نہیں تھا بلکہ حقیقت پر مبنی منظر تھا۔ ہاتھوں میں فلمی جریدہ تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ اُن پر یہ دن بھی آئے گا جب اُن کے شوہر لیفٹنٹ کمانڈر راجنیش بہل کا ان کے ساتھ اس قدر جارحانہ رویہ ہوجائے گا۔
دونوں کی شادی کو لگ بھگ دس سال کا عرصہ بیتا تھا۔ وہ اس دوران ایک بیٹے کی ماں بھی بن گئی تھیں۔ کئی بار دونوں کے درمیان تلخیاں اور روایتی نوک جھوک بھی ہوئی لیکن پھرچند گھنٹوں کی ناراضگی کے بعد اس کشیدہ صورت حال کا انجام صلح میں چھپا ہوتا۔
مگر اِس وقت وہ عجیب کشمکش سے دوچار تھیں۔ فلمی جریدے میں اُن کے اور نئے اداکار سنجیو کمار کے عشق کے فسانے شائع ہوئے تھے اور یہ سلسلہ اس سے پہلے بھی کئی اخباروں اور جرائد کی زینت بنتا رہا تھا۔ جنہیں نوتن نظر انداز کرتی رہیں۔
فلمی گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ جانتی تھیں کہ ذرائع ابلاغ اس قسم کی مسالہ اور چٹ پٹی خبریں شائع کرکے اپنے خریداروں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں اور یہ کہانیاں صرف اور صرف ان کا دل لبھانے کے لیے ہوتی ہیں جن میں مبالغہ آرائی کا استعمال ضرورت سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس آگ کی تپش خود اُن کے شوہر تک پہنچی تو وہ آپے سے باہر ہوگئے۔
نوتن کے سامنے اب ایک روایتی شوہر کا روپ عیاں ہوا تھا۔ اختلافات اور لڑائی جھگڑے اب روز روز ہونے لگے۔ جس میں صرف روٹھنا تھا منانا تو ہو ہی نہیں پا رہا تھا۔ نوتن فلم کے سیٹ پر ہوتیں تو ان کو یہی فکر ستاتی کہ نجانے کون کب ان کے بارے میں کیا چھاپ دے۔ عالم یہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنے کو سٹارز کے ساتھ اور زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے لگی تھیں۔ صحافیوں سے بچنے لگی تھیں۔ شوہر روز کٹہرے میں کھڑا کرکے اُن سے مختلف سوالات کی بوچھاڑ کرتے تو انہیں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اب ان کی شادی شدہ زندگی داؤ پر لگ گئی ہے۔
وہ ہر دن صفائی دیتی رہتیں لیکن فلمی جریدوں کے فسانے ان کے شوہر راجنیش بہل کو اور زیادہ جلالی اور سنگ دل بنا رہے تھے۔ انہیں محسوس ہوتا کہ چاروں طرف سے ان پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ آج بھی راجنیش بہل نے اُنہیں ہی ذمہ دار قرار دیا تھا اور یہ اعلان بھی کر ڈالا تھا کہ اگر خبر کے مطابق نوتن ان سے واقعی نجات چاہتی ہیں تو وہ ہنسی خوشی یہ فیصلہ قبول کرنے کو بھی تیار ہیں۔
اس ارادے نے تو جیسے نوتن کے پیروں تلے زمین نکال دی تھی۔ وہ کسی صورت شوہر سے علیحدگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں، مگر بدقسمتی سے وہ اُن کی کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں تھے بلکہ وہ تو خود نوتن پر شک کرنے لگے تھے۔ اپنی گھر گرہستی بچانے کے لیے اب نوتن نے بھی ایک اہم فیصلہ کرلیا تھا۔ وہ اس معاملے کو آر یا پار کرنے کے موڈ میں تھیں، جبھی ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا حکم دے چکی تھیں۔
نوتن فلم میکر کمارسین سمراٹ اور اداکارہ شوبھنا سمراٹ کی بیٹی تھیں۔ نوتن کی چھوٹی بہن تنوجہ بھی اُنہی کی نقش قدم پر چلتے ہوئے فلمی دنیا میں بڑا نام کما چکی تھیں۔ چودہ برس کی عمر میں اداکاری کے میدان میں قدم رکھنے والی نوتن نے ’سیما اناڑی‘، ’سُجاتہ‘ اور ’بندھنی‘ جیسی فلموں میں کام کرکے اپنی الگ شناخت قائم کرلی تھی۔ دوسری اداکاراؤں کے برعکس نوتن فلم کے سیٹ پر الگ تھلگ رہتیں۔ زیادہ تر وقت مطالعے میں گزار دیتیں۔ ہدایت کار شارٹ کی تیاری کا اعلان کرتا تو سکرپٹ پر بغور نظر مارنے کے بعد وہ بھی تیار ہوجاتی ۔ تنہائی پسند نوتن کی یہ عادت ہر ایک کے علم میں تھی۔ جبھی کوئی بھی اُن سے بے تکلف ہونے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔
1966 میں جب انہوں نے پہلی بار سنجیو کمار کے ساتھ گجراتی زبان کی فلم ’کلاپی‘ میں کام کیا تو کم و بیش نوتن والے ہی مشغولات اور عادات سنجیو کمار کے بھی تھے۔ کم گو اور خاموش طبع صرف وقت ضرورت ہی لب کشائی کرنا۔ ایک جیسی طبیعت اور مزاج کی وجہ سے بہت جلد سنجیو کمار اور نوتن کے اچھے مراسم ہوگئے۔ اگلے دو برس کے دوران دونوں پھر ’گوری‘ میں یکجاں ہوئے تو یہ دوستانہ اور مضبوط ہوتا گیا۔
دونوں عکس بندی کے دوران سیٹ پر مختلف موضوعات پر اظہارخیال کرتے اور سٹوڈیوز کے چکر لگا کر خبروں کی کھوج میں نکلے رپورٹرز کو یہ میل میلاپ کچھ اور نظر آنے لگا، جنہوں نے دونوں کو لے کر عشقیہ فسانے گھڑنے شروع کردیے، جنہیں نوتن ہمیشہ کی طرح کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔
نوتن کی اسی خاموشی کے باعث رنگین کہانیاں میں اور رنگ بھرے جانے لگے اور یہاں تک کہا جانے لگا کہ نوتن جیسی بڑی اداکارہ ایک نوآموز اداکار سنجیو کمار کے عشق کے بخار میں تپ رہی ہیں۔ یہی قصے کہانیاں اب نوتن کی ازدواجی زندگی میں دھیرے دھیرے آگ لگانے کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ 1959 میں جب وہ اور سنجیو کمار پھر سے نئی فلم ’دیوی‘ میں کام کررہے تھے تو سمجھیں صحافیوں کو اور موقع مل گیا۔
نوتن کی گاڑی سٹوڈیو کی طرف رواں دواں تھی۔ ان کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ ’دیوی‘ کی عکس بندی کے دوران انہوں نے محسوس کیا تھا کہ صحافی غیر ضروری طور پر سنجیو کمار سے شہد کی مکھیوں کی طرح چمٹے رہتے ہیں۔ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ فلموں میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے سنجیو کمار ان کے نام کو سیڑھی کی طرح استعمال کررہے ہیں۔ نوتن کا ارادہ تھا کہ اب وہ سنجیو کمار سے ہی ان خبروں کی تردید کروا کے اپنے شوہر کا دل جیتنے کی کوشش کریں گی۔
انہوں نے ہاتھوں میں مضبوطی سے وہ فلمی جریدہ تھاما ہوا تھا جو اُن کے شوہر نے ان کی جانب اچھال کر سوالات کے تیر اُن پر برسائے تھے۔ گاڑی سٹوڈیو میں جا کر رکی تو نوتن کی نگاہیں سنجیو کمار کو تلاش کرنے لگیں۔ اب یہ سنجیو کمار کی بدقسمتی ہی تھی کہ اِس وقت وہ چند صحافیوں کے نرغے میں تھے اور خوب خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ نوتن تو یہ سب دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئیں، جن کے شک کو یقین ہوگیا کہ سنجیو کمار جان بوجھ کر انہیں اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر بدنام کرکے ان کی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کررہے ہیں۔
نوتن دندناتی ہوئی سنجیو کمار تک پہنچ رہی تھیں۔ جو اُن کے سرخ چہرے اور بدلتے جارحانہ تیور کو بھانپ گئے تھے۔ اگلے ہی لمحے نوتن اب سنجیو کمار کے مقابل کھڑی تھیں۔ اس سے پہلے وہ سنبھلتے، نوتن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کے منہ پر فلمی جریدہ دے مارا اور صرف اسی سے اُن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا، بلکہ آگے بڑھ کر نوتن نے ایسا زناٹے دار طمانچہ سنجیو کمار کے منہ پر مارا کہ وہ ہی کیا سیٹ پر موجود ہر شخص پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ اس سے پہلےسنجیو کمار کچھ کہتے نوتن جتنی تیزی سے سیٹ پر آئی تھیں، اس سے زیادہ برق رفتاری اور پھرتی کے ساتھ واپس جا کر گاڑی میں بیٹھیں اور ڈرائیور کو واپس چلنے کا اشارہ کیا۔
اِدھر سیٹ پر موجود افراد اوربالخصوص رپورٹرز پر سنجیو کمار اور نوتن کی رومان پرور کہانی کی اصل حقیقت عیاں ہوگئی تھی بلکہ یہ کہا جائے تو انہیں جواب بھی مل گیا تھا۔ جو یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جو تھپڑ سنجیو کمار کو پڑ سکتا ہے کوئی بعید نہیں نوتن کا اگلا نشانہ وہی ہوں۔ رپورٹرز نے اگلے ہی دن اس واقعے کو من و عن شائع کیا اور تسلیم کیا کہ نوتن نہ تو سنجیو کمار کے عشق میں ہیں اور نہ ہی ان کی وجہ سے اپنے شوہر کو چھوڑ رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ خبریں خود نوتن کے سخت گیر اور غصیلے شوہر نے پڑھیں تو انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ جبھی اپنے جارحانہ رویے اور منفی خیالات پر انہوں نے نوتن سے معذرت بھی کی۔
اس سارے فسانے کے بعد نوتن خاصی مطمین تھیں، جنہوں نے جیسے تیسے فلم ’دیوی‘ کو مکمل کرایا جس کے سیٹ پر سنجیو کمار ہمیشہ اُن سے نگاہیں چرائے چرائے رہتے۔ دونوں کے درمیان بات چیت تو کیا ایک دوسرے کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ اس فلم کے بعد نوتن نے کبھی بھی سنجیو کمار کے ساتھ کسی اور تخلیق میں کام نہیں کیا۔ اِدھر بے چارے سنجیو کمار نے اس واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
نوتن کے بعد عشق کی پینگیں ہیما مالنی سے بڑھائیں لیکن انہوں نے بھی اس تعلق کو کوئی رشتے کا نام دینے سے معذرت کرلی ۔ جس کے بعد سنجیو کمار کے پیار کے خمار میں سلکھشنا پنڈت کھوئیں، لیکن سنجیو کمار نے اِن سے شادی کرنے سے انکار کردیا ۔
اب یہ نوتن یا ہیما مالنی سے ناکام عشق تھا یا پھر کوئی اور بات کہ سنجیو کمار اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ فلموں میں بے شمار ہیروئنز کے دل کے راجا بننے کے باوجود حقیقی زندگی میں کبھی بھی کسی کے شریک سفر نہ بن سکے ۔