دیدم انداچ نے 1983 میں پہلی بار ترکی کے شہر قونیہ میں مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر ہونے والا مشہور رقصِ درویش دیکھا۔
دیدم اس وقت استنبول کی معمار سنان فائن آرٹس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں، مگر وہ اس رقص سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رومی کی درویشنی بننے کا فیصلہ کر لیا۔ جلد ہی وہ مولانا رومی کے مزار پر ہونے والے سماع کی ساڑھے سات سو سالہ تاریخ میں پہلی خاتون درویش بن گئیں۔
انداچ نے انڈپینڈنٹ ترکی سے بات کرتے ہوئے کہا:
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں نے پہلی بار 1993 میں محفلِ درویش میں رقص کا مظاہرہ کیا تو خود میرے گروپ کے لوگ حیران ہو گئے کیوں کہ یہ انتہائی جرات مندانہ فیصلہ تھا۔ قدامت پرستوں کی طرف سے آنے والے ردِ عمل کا پہلے سے پتہ تھا اور میرے دادا اس کے لیے تیار تھے۔ مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ سماع میں حصہ لینا مولانا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے۔ خود مولانا رومی کے پوتے دیوانہ محمد نے 16ویں صدی میں افیون مولوی خانقاہ میں عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ رقص کروایا۔‘
مولانا رومی کا رقص درویش دنیا بھر سب سے مشہور و معروف رقص بن گیا ہے۔ اس رقص کے دوران درویش سفید رنگ کی ترکی ٹوپی پہن کر اور سفید جبے پہن کر دائرے میں یوں گھومتے ہیں کہ ان کا ایک ہاتھ آسمان کی طرف اور دوسرا زمین کی طرف ہوتا ہے۔
اس رقص کے ہر ہر پہلو کی مخصوص صوفیانہ علامتی حیثیت ہے۔ رقص کی ابتدا سیاہ جبے سے کی جاتی ہے جو زمینی آلائشوں کی علامت ہے۔ جوں جوں رقص جوش میں آتا ہے تو درویش اس سیاہ جبے کو اتار پھینکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا ہے۔
گھومنے کے دوران درویش دایاں ہاتھ اوپر کی طرف رکھتے ہیں جس کی ہتھیلی کھلی ہوتی ہے، دوسرا ہاتھ نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا مطلب اوپر والے ہاتھ سے آسمانی برکت حاصل کرنا اور نچلے ہاتھ سے اسے زمین پر منتقل کر دینا ہوتا ہے۔
انداچ کہتی ہیں کہ انہیں شروع میں خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ’ہمارے دلوں میں خوف نہیں، صرف خدا کا عشق ہے۔ ہم اللہ کے حسن کے جلوے انسانوں میں دیکھتے ہیں، نبی اکرم سے لے کر مولانا رومی تک۔‘
دیدم سے متاثر ہو کر کئی اور خواتین نے بھی اسی راہ پر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔
ایک اور درویشنی جمرہ گینچ ہیں، جنہوں نے 21 برس کی عمر سے رقصِ درویش کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے ایک دوست نے دیدم کے بارے میں اخبار میں پڑھ کر انہیں بتایا۔ اس سے جمرہ کو بھی شوق پیدا ہو گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ میں نے اسی وقت درویشنی بننے کا فیصلہ کر لیا: ’میرے دل نے کہا کہ یہی میرا اصل گھر ہے۔ مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’خدا نے سب کو ایک جیسے دماغ دے رکھے ہیں، اور ان کی روحیں بھی ایک جیسی ہیں۔ جسم کے ختم ہو جانے کے بعد جو چیز باقی بچتی ہے وہ تو روح ہی ہے۔‘
جمرہ کے مطابق: ’میرا خیال ہے کہ عشق کا جذبہ تلاش سے ابھرتا ہے۔ مولانا کی مثنوی کی پہلی سطروں میں لکھا ہے کہ جب سے نے بانس سے جدا ہوئی ہے، اس کے بعد سے مرد و زن کی حالت بد سے بدتر ہوئی ہے۔‘