کوئی ہے جس نے چار سالہ بچی کو اپنی شلوار اتارتے دیکھا اور پھر چین کی نیند سو پایا ہو؟ ابھی کچھ دن پہلے ہم کسی اور کو رو رہے تھے، آج اس کا نوحہ پڑھ رہے ہیں، کچھ دن گزریں گے اسے بھی بھلا دیں گے، پھر کوئی نئی روح ہوگی، نیا نام ہو گا، نیا ہیش ٹیگ ہو گا، پھر اس کی جگہ بھی کوئی نیا قصہ لے لے گا۔
یہ ہم کس عہد میں جی رہے ہیں؟ یہ کون سا جنگل ہے جہاں کوئی قانون نہیں چلتا؟
اس قیامت کے بعد ایک بڑے مفتی صاحب کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ چار سالہ، آٹھ سالہ اور سولہ سالہ بچیوں کے بارے میں مذاق کر رہے تھے۔ پچھلے کسی بلاگ کے جواب میں ایک جاننے والے کا میسج آ گیا۔ کہنے لگے، ’اسی معاشرے کا آدمی ہوں پر یقین مانیں ان جیسا نہیں ہوں۔ خواتین کی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ میرا خدا جانتا ہے کبھی ذہن میں ایسا ویسا کوئی خیال نہیں آیا۔ پر اپنے دوستوں کا کیا کروں۔ فون کرتے ہیں تو کہتے ہیں، ارے بھائی، تمہارے تو مزے ہیں، ہر طرف رنگین آنچل، ہر طرف بہار، ہم تو یہاں ویرانے میں پڑے ہیں۔‘
کہنے لگے، ’یہ بھی تو بیمار سوچ ہے۔ افسوس مردوں کی اکثریت یہی سوچ رکھتی ہے۔ جس کو موقع ملتا ہے وہ کر گزرتا ہے اور جنہی نہیں مل پاتا وہ اسے حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں، تب تک ایسے ہی مذاق کرتے ہیں اور چسکے لیتے ہیں۔‘
میں نے پوچھا، ’آپ نے کبھی کسی کی سرزنش نہیں کی؟‘
کہنے لگے، ’بہت بار کی۔ آگے سے کہتے ہیں، جانی، ناراض کیوں ہوتے ہو، ہم تو مذاق کر رہے تھے۔ کیا اب تم سے مذاق بھی نہیں کر سکتے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مفتی صاحب نے بھی اپنی ویڈیو کے دفاع میں کچھ ایسا ہی بیان جاری کیا۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ان کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ تو بس مذاق کر رہے تھے۔ جی، مسئلہ یہی ہے کہ آپ مذاق کر رہے تھے۔ ایسا مذاق کرنے سے پہلے کچھ تو اپنے نام اور عہدے کا خیال کیا ہوتا۔ بچی سولہ سال کی ہو، آٹھ سال کی ہو یا چار سال کی، اس کے بارے میں کوئی ایسا مذاق کیسے کر سکتا ہے؟ چلو مذاق کر لیا، اس کے بعد خود بھی ہنسے اور اپنے پیرو کاروں کو بھی ہنسایا۔ شرم نہ آئی؟ روح نہ کانپی؟ ایک کام کریں، اس بچی کی ویڈیو دیکھیں اور پھر دوبارہ یہ مذاق کریں، شاید تب آپ کی زبان پتھر کی ہو جائے۔
چلیں ان کی بات بھی نہیں کرتے۔ ایک عام آدمی کا قصہ سن لیں۔ یہ اتنے ہی عام ہیں جتنے میں اور آپ۔ ان کا محبت میں دل ٹوٹا تو ٹھرکی بن گئے۔ معاف کیجیے گا، میں یہ لفظ استعمال نہ کرتی پر بلاگ کی ضرورت ہے۔ آج کل ویسے بھی خود کو ٹھرکی یا سڑک چھاپ کہنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ وہ الگ بات کہ خواتین ایسے فیشن نہیں کرتیں، مرد ہی کرتے ہیں۔
وہ صاحب بھی یہی فیشن کر رہے تھے۔ محافل میں خود کو فخریہ ٹھرکی کہتے تھے۔ جہاں ہوتے آس پاس موجود لڑکیوں کا فرصت سے معائینہ کرتے اور ایسا معائنہ کرتے کہ ساتھ موجود دوست شرمندہ ہو جاتے۔ کوئی ٹوکتا تو فخریہ کہتے یار، میں ٹھرکی ہوں۔ کچھ ماہ بعد یہ صاحب اپنے گھر والوں کے ساتھ سیر کو چلے گئے۔
واپسی ہوئی تو پریشان نظر آ رہے تھے۔ دوستوں نے حال احوال پوچھا تو کہنے لگے، یار، یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا۔ شریف گھرانوں کا گھر سے نکلنا محال ہے۔ والدہ اور بہنوں کے ہمراہ سیر کو گئے تھے، اُف کیا نظریں تھیں، لوگ ہماری موجودگی میں ہماری والدہ اور بہنوں کو بے شرمی سے گھور رہے تھے، جی تو چاہ رہا تھا ان کی آنکھیں نوچ لوں۔ وہ تو شکر ہے ہم سب بھائی ساتھ تھے۔ ہم نے بہنوں اور امی کو اکٹھا کیا اور خود ان کے دائیں بائیں ہو گئے۔
دوستوں نے کہا، روتے کیوں ہو، جیسے تم ٹھرکی ہو، ویسے دوسرے بھی ٹھرکی ہیں۔ پہلے تم کر رہے تھے، اب وہ کر رہے ہیں۔ برداشت کرو۔
ہم سب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب تک یہ ظلم دوسروں کے ساتھ ہو رہا ہے تب تک ہم فخریہ ٹھرکی بھی ہیں، ایسے مذاق کر کے دوسروں کو ہنسانے کے ماہر بھی ہیں اور کسی کے ساتھ ایسا واقعہ ہونے کی صورت میں اس سے تابڑ توڑ سوال کرنے کے اہل بھی ہیں۔ جس دن یہ ظلم ہمارے گھر پہنچ گیا اس دن ہماری ٹھرک کے ساتتھ ساتھ حسِ مزاح اور سوال بھی غائب ہو جائیں گے۔ اس دن ہم صرف انصاف مانگیں گے۔ اس دن ہمارا کلیجہ پھٹنے کو ہو گا۔ ہم ایک سے دوسرا گریبان پکڑیں گے اور اس سے اپنا قصور پوچھیں گے۔
آج ہم آپ کو آپ کا قصور بتا دیتے ہیں۔ یہ مذاق آپ کا قصور ہیں۔ ایسے مذاق کرنا، ان پر ہنسنا، دوسروں کو ہنسانا اور دوسروں کو ایسا مذاق کرتے دیکھ کر نظر انداز کر دینا، آپ کا قصور ہے۔ خدارا، ہوش کے ناخن لیں اور اپنی اور دوسروں کی حسِ مزاح بہتر بنائیں۔