پاکستان میں کینیڈا اور چینی کمپنی کے اشتراک سے بننے والی کرونا (کورونا) وائرس کی ویکسین Ad5-nCoV کے تیسرے مرحلے اور انسانی ٹرائل کا آغاز ستمبر کے آخری ہفتے میں شروع کیا گیا۔
اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقبال پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے ویکسین ٹرائل کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اب تک جتنے افراد نے پاکستان میں ٹرائل میں حصہ لیا، ڈیٹا کے مطابق ٹرائل کامیاب جا رہا ہے اور دو سے تین ماہ میں ’اچھی خبر‘ ملنے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا جتنے زیادہ لوگ اس ٹرائل میں حصہ لیں گے اتنا ہی ویکسین کے ٹرائل کی کامیابی کا تعین ہو گا۔
ڈاکٹر اقبال خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ویکسین ٹرائل کو چھ ہفتوں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے، 56 دن پورے ہونے پر اینٹی باڈی ٹیسٹ ہو گا جس سے علم ہو گا کہ جسم میں اینٹی باڈیز بنی ہیں یا نہیں، اس دوران جسم میں کرونا وائرس داخل ہوا تھا یا نہیں، اگر ہوا تھا تو ویکسین نے کیسے کام کیا؟
انہوں نے بتایا کہ ’کین سائنو‘ CanSino ویکسین کے کُل 40 ہزار افراد پر ٹرائل کیے جا رہے ہیں اور جن ملکوں میں یہ ٹرائل ہو رہے ہیں ان میں پاکستان کے علاوہ روس، سعودی عرب، میکسیکو اور کینیڈا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دس ہزار افراد نے تیسرے مرحلے کے ٹرائل میں شامل ہونا تھا، اسلام آباد میں 2500 افراد پورے ہو گئے ہیں، جبکہ کراچی آغا خان میں چھ سو، انڈس ہسپتال کراچی میں آٹھ سو، لاہور یو ایچ ایس میں 150 جبکہ شوکت خانم میں 650 افراد پر ٹرائل کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ اب تک لگ بھگ پانچ ہزار افراد پر ویکسین کا ٹرائل ہو چکا ہے، باقی شہروں کو ابھی اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ این سی او سی اس حوالے سے کردار ادا کر رہا ہے تاکہ ملک بھر سے لوگوں کی نمائندگی ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل اور دو ہزار افراد پورے ہونے اوراُن کے نتائج مرتب ہونے میں تین ماہ کے لگ بھگ لگیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ باقی ملکوں میں تیسرے مرحلے کے لیے مقررہ تعداد مکمل ہو چکی ہے، صرف پاکستان میں تعداد مکمل ہونے کا انتظار ہے۔
واضح رہے کہ کین سائنو چینی فوجی سائنس دانوں اور کینیڈا کی مشترکہ کاوش ہے۔ چین میں اس کا پہلا انسانی ٹرائل رواں برس مارچ میں کیا گیا تھا، جبکہ چین میں جولائی میں چینی فوجیوں پر بھی اس ویکسین کے ٹرائل کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرائل کا طریقۂ کار کیا ہے؟
ٹرائل میں حصہ لینے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے کو اصل ویکسین لگتی ہے جب کہ نصف لوگوں کو خالی انجیکشن (placebo) لگتا ہے جس میں کوئی دوا نہیں ہوتی۔
یہ ایک عام سائنسی طریقۂ کار ہے جس سے کسی دوا کے اثر کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اقبال نے بتایا کہ یہ ٹرائل ’ڈبل بلائنڈ‘ یا ’دہرا اندھا‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو ویکسین لگانے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ ویکسین لگا رہا ہے یا خالی ٹیکہ، اور نہ ہی اس شخص کو پتہ چلتا ہے جسے ٹیکہ لگا ہے۔
البتہ دونوں طرح کے لوگوں کا ڈیٹا کمپیوٹر میں موجود ہوتا ہے، اور مقررہ وقت کے بعد دونوں گروپوں میں سے خون کا نمونہ لے کر دیکھا جائے گا کہ ان میں کرونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بنی ہیں یا نہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کس گروپ میں سے کتنے لوگوں کو کرونا ہوا ہے، اور اس کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ یہ ویکسین کتنی موثر ہے۔
ویکسین لگوانے کا تجربہ اب تک کیسا رہا؟
ڈاکٹر اقبال خان نے بتایا کہ حتمی نتائج تو ابھی نہیں آئے لیکن ابھی تک جتنے افراد پر کین سائنو ویکسین کا ٹرائل کیا گیا ہے ان میں کوئی منفی رپورٹ نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ٹیکہ لگوائے ساتواں ہفتہ شروع ہو گیا ہے، لیکن اب تک انہوں نے کوئی منفی اثرات محسوس نہیں کیے، بس ہلکا بخار یا پھر متلی کی کیفیت ہوئی تھی لیکن وہ بھی زیادہ نہیں ہوئی۔
یہ ویکسین دوسری ویکسینوں سے کس حد تک مختلف ہے؟
امریکی کمپنیوں موڈرنا اور فائزر کی ویکسینوں میں کرونا وائرس کی بجائے اس کا جینیاتی مواد یعنی ایم آر این اے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ جینیاتی مواد جسم میں پہنچ کر کرونا وائرس کی پروٹین بنانا شروع کر دیتا ہے اور جسم سمجھتا ہے کہ اصل کرونا وائرس کا حملہ ہو گیا ہے اور وہ اس کے خلاف اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی اب تک کسی ویکسین میں استعمال نہیں ہوئی۔
اس کے برعکس کین سائنو کی ویکسین پرانے طریقۂ کار کے تحت بنائی گئی ہے اور اس میں وائرس ہی جسم میں انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ کرونا وائرس نہیں بلکہ زکام کا انسانی وائرس ہے اور اس میں کرونا وائرس کی ایک پروٹین شامل کی گئی ہے۔ یہ وائرس ناکارہ حالت میں ہے اور بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ مدافعتی نظام اس وائرس کو کرونا وائرس سمجھ کر اس کے خلاف اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیتا ہے اور اگر فعال کرونا وائرس کا حملہ ہو تو جسم پہلے سے تیار ہوتا ہے۔
ایک اور فرق یہ ہے کہ کین سائنو ویکسین کی صرف ایک ہی خوراک لگتی ہے، جب کہ امریکی ویکسینوں کی دو دو خوراکیں لینا پڑتی ہیں۔
دونوں امریکی ویکسینیں اپنی نوعیت کی پہلی ویکسینیں ہیں اور ان کی نوعیت تجرباتی ہے کیوں کہ آج تک دنیا میں اس قسم کی کوئی ویکسین سامنے نہیں آئی۔ اس کے مقابلے پر کین سائنو کی ویکسین کا طریقۂ کار آزمودہ ہے اور اسی طریقۂ کار کے تحت پہلے کامیاب ویکسینیں بن چکی ہیں۔
کین سائنو کی ویکسین کی خامیاں؟
کین سائنو کی ویکسین پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی صرف ایک خوراک لی جاتی ہے جس کی وجہ سے کافی مقدار میں اینٹی باڈیز نہیں بنتیں۔
دوسرا اعتراض ہے کہ چونکہ اس ویکسین میں انسانوں میں زکام پیدا کرنے والا وائرس استعمال ہوا ہے اس لیے جسم میں پہلے سے اس کے خلاف مدافعت موجود ہو گی، جو کرونا وائرس کی اینٹی باڈیز بنانے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔
تاہم کین سائنو کمپنی نے دونوں اعتراض مسترد کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ ابتدائی نتائج کے مطابق ان کی ویکسین موثر ہے۔
ٹرائل میں حصہ لینے پر کتنا خرچ آتا ہے؟
جن لوگوں نے ٹرائل میں حصہ لیا ہے انہیں مفت میں ویکسین یا خالی ٹیکہ لگا ہے۔ اگر حتمی نتائج کے بعد ویکسین کامیاب نکلی تو جن لوگوں کو خالی ٹیکہ لگا تھا، انہیں بھی مفت ویکسین لگائی جائے گی۔
البتہ جن لوگوں نے ٹرائل میں حصہ نہیں لیا، انہیں حکومت کے طے کردہ ریٹ کے مطابق ویکسین لگائی جائے گی۔