ایران کے صدر حسن روحانی نے جوہری سائنسدان کو قتل کرنے کے لیے اسرائیل پر امریکی ’زرخرید‘ کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔
حسن روحانی کا یہ بیان گذشتہ روز تہران میں ایک ایرانی جوہری سائنسدان پر قاتلانہ حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنی ویب سائٹ پر جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کے تناظر میں کہا کہ ’ایک مرتبہ پھر عالمی مغرور کے فاسق ہاتھ غاصب صہیونی حکومت کی بطور زرخرید مدد سے قوم کے بیٹے کے خون سے رنگے ہیں۔‘
واضح رہے کہ ایران ’عالمی مغرور‘ کے الفاظ عام طور پر امریکہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ایرانی جوہری سائنسدان کو جمعے کو دماوند کے علاقے ابسرد میں گولیوں سے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد وہ ہسپتال میں زخموں کی تاب لا کر ہلاک ہوگئے۔ ان کی ہلاکت پر ایران کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کی ہلاکت کا بدلہ لے گا۔
ایران کے رہب اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے عسکری مشیر حسین دیغان نے کہا کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد پر گہری 'چوٹ' لگائیں گے۔
محسن فخری زادہ کون تھے؟
جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے بارے میں مغرب کا طویل عرصے سے گمان تھا کہ وہ مشتبہ طور پر ایرانی خفیہ ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔
وہ بیرونی ممالک کے نزدیک 2003 میں بند کیے گئے ایک پوشیدہ ایٹمی بم پروگرام کے قائد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے عرش عزیزی کے مطابق وہ ایران کی جانب سے واحد ایٹمی سائنسدان تھے جن کا نام 2015 میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کی 'حتمی جانچ' میں شامل تھا۔
دو سال قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے اعلان کیا تھا کہ ان کے ملک کی سکیورٹی فورسز ایران کے جوہری ذخیرے چوری کرنے اور اس کے راز سیکھنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔
اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے نتن یاھو نے کہا 'محسن فخری زادہ، یہ نام یاد رکھنا۔'
نتن یاھو جس شخص کے بارے میں بات کر رہے تھے انہیں آج قتل کردیا گیا۔ پاسداران انقلاب کے قریبی ذرائع نے ان کے قتل کی ویڈیوز جاری کی ہیں۔ ایرانی وزارت دفاع نے ان کی موت کی تصدیق کردی ہے۔
نتن یاہو کی تقریر پہلی بار نہیں جب دنیا نے فخری زادہ کے بارے میں سنا تھا۔ ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں اس نام کو بار بار اہم شخصیت قرار دیا گیا۔
یہاں تک کہ یہ نام امریکی میڈیا کے طاقت ور ترین مردوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ مغربی میڈیا نے ان کا موازنہ نظریاتی طبیعیات کے سائنسدان رابرٹ اوپن ہائیمر اور 84 سالہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کیا جو اپنے ملک کے لیے ایٹم بم بنانے میں کامیاب رہے۔
ایرانی سیکیورٹی دفاعی شخصیات نے فخری زادہ کو ایٹمی طبیعیات کے شعبے میں ایک باصلاحیت مفکر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
وہ ہاشمی رفسنجانی کے زمانے سے ایران کی دفاعی صنعت میں ایک اہم شخصیت رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے جوہری پروگرام (جو 2003 میں ختم ہوگیا تھا) میں ان کے کردار کے انکشاف کی وجہ سے انہیں 2007 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
فخری زادہ کو نیو ڈیفنس ریسرچ آرگنائزیشن نامی ایک تنظیم کا سربراہ نامزد کیا گیا جو ایرانی وزارت دفاع کا حصہ ہے۔
2010 میں ، جرمنی کے ڈیر اسپیگل میگزین نے ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی تائید کرنے والی خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں دو افراد نمایاں تھے: احمدی نژاد کے وزیر برائے سائنس ، کامران دانشجو اور محسن فخری زادہ۔
فخری زادے 1961میں قم میں پیدا ہوئے، اپنے کام کی حساسیت کی وجہ سے وہ ہمیشہ میڈیا کی نظروں سے دور رہتے تھے۔ تاہم ان کا نام 1980 کی دہائی کے اخبارات میں ایرانی طبیعیات کی ایک اہم شخصیت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ مختلف دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ایرانی یونیورسٹی میں طبیعیات کی تعلیم بھی دے رہے تھے۔
اس قتل کا مفہوم
فخری زادہ کے قتل نے دو واضح سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب یا اسرائیل کو یقین ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کیا ہے؟ اور کیا یہ کسی وسیع تنازعہ کا پیش خیمہ ہے؟
تاہم ، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاسداران انقلاب اگر اپنے اعلی ترین سائنسدانوں کی زندگیاں بھی نہیں بچا سکتے، تو ان کی سیکیورٹی کس قابل ہے؟