برطانیہ میں آئندہ ہفتے سے کرونا (کورونا) وائرس کی ویکسینیشن کے عمل کے آغاز کی منظوری مل گئی ہے، لیکن وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس وبائی مرض کے خلاف ’اپنے حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد جاری رکھیں‘۔
نو ماہ کے لاک ڈاؤن، سخت پابندیوں اور تقریباً 60 ہزار ہلاکتوں کے بعد برطانیہ فائزر اور بائیونٹیک ٹیک کی جانب سے تیار کی گئی کرونا ویکسین کے استعمال کی اجازت دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے اور اس اعلان نے ملک بھر میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑا دی۔
تاہم وزیر اعظم جانسن نے خبردار کیا کہ ’یہ (وائرس) ختم نہیں ہوا‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عوام سے ان تین سطحی علاقائی پابندیوں پر سختی سے عمل درآمد جاری رکھنے کی درخواست کی جو اسی دن پورے انگلینڈ میں نافذ کی گئی تھیں۔
جس دن اس ویکسین کی منظوری دی گئی اسی روز ملک میں 16170 کووڈ 19 کے کیسز اور 648 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد سرکاری طور پر اعلان کردہ ہلاکتوں کی تعداد 59699 تک جا پہنچی۔
ڈپٹی چیف میڈیکل آفیسر جوناتھن وان تام نے انفیکشن کی ’بڑھتی ہوئی لہر‘ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ سماجی دوری اور معاشی سرگرمیوں پر قابو پانے کی کوششوں کو ترک کردیں گے تو اس سے کووڈ 19 سے خطرے کے خاتمے کا عمل بھی متاثر ہو گا۔
حکومت نے ویکسین کو مسترد کرنے والے ’اینٹی ویکسیکر‘ پیغامات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کر لی ہے اور پروفیسر وان تام نے کہا کہ ویکسین لگوانے سے انکار سے پب، ریستوراں، کنسرٹ ہال، کھیلوں کے سٹیڈیم اور تھیٹر کے مکمل طور پر دوبارہ کھولنے میں تاخیر ہو سکتی ہے اور دوست اور خاندان کے افراد شاید جلد دوبارہ نہ مل پائیں۔
وزیر اعظم نے ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ویکسین کے محفوظ اور موثر ہونے کی سند ہمیں ’اس بات کی یقینی اور حتمی معلومات فراہم کرتی ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے اور مل کر اپنی زندگی اور اپنی زندگی کے بارے میں ان تمام چیزوں کا دوبارہ سے آغاز کریں گے جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔‘
لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ’خطرے کا سامنا کرنے والے تمام کمزور افراد کو تحفظ فراہم کرنے میں لامحالہ کچھ مہینوں کا وقت لگے گا، طویل سرد مہینے۔ لہذا یہ سب سے زیادہ اہم ہے کہ جب ہم اس سائنسی کامیابی کا جشن منائیں تو ہم اسے حد سے زیادہ پرامیدی یا اس بے وقوفانہ سوچ، کہ یہ جدوجہد ختم ہو گئی ہے، اسے ضائع نہ کر دیں۔‘
وزیراعظم جانسن نے انکشاف کیا کہ کیئر ہومز کے لیے فائزر ویکسین کی فراہمی ابتدائی طور پر ممکن نہیں ہوگی اس کے باوجود کہ یہاں کے مریض اور عملہ ویکسین کی ترجیحات کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں۔
بیلجیم سے لائے گئی 975 خوارکوں والے کیسز میں سے ویکسین نکال کر اسے منفی 70 سیلسیئس درجہ حرارت پر رکھتے ہوئے گھروں میں تقسیم کرنے سے پہلے اس کے لیے ’میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی‘ (ایم ایچ آر اے) سے اضافی منظوری کی ضرورت ہوگی۔ منفی 70 سیلسیئس سے زیادہ درجہ حرارت پر یہ ویکسین بے اثر ہوجاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بجائے آئندہ ہفتے سے انگلینڈ کے 53 ہسپتالوں میں 80 سال کی عمر سے زیادہ افراد کے لیے سب سے پہلے ویکسین کا انتظام کیا جائے گا جس کے بعد سب سے زیادہ خطرے کا سامنا کرنے والے کیئر ہومز کے عملے اور این ایچ ایس کے ارکان کو ترجیح دی جائے گی۔
اس مہینے کے آخر تک اس آپریشن کو پورے انگلینڈ کے ایک ہزار مقامی ویکسینیشن مراکز میں جی پی گروپس کے لیے ایک ساتھ بڑھایا جائے گا۔
لیکن کرسمس سے پہلے صرف آٹھ لاکھ خوراکیں فراہم کی جانے کی توقع ہے جیسا کہ ہر مریض کو تین ہفتوں کے وقفے سے دو انجیکشنز کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی بڑی اکثریت کو ویکسین کے تحفظ کے بغیر ہی یہ تہوار منانا پڑے گا۔
این ایچ ایس انگلینڈ کے چیف ایگزیکٹو سر سائمن سٹیونز نے کہا مارچ یا اپریل تک ویکسینیشن کے پہلے مرحلے، جس میں 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد، طبی عملے اور ایسے افراد جن کی حالت خطرے میں ہے، کو ویکسین فراہم کرنے کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔
پروفیسر وان تام نے خبردار کرتے ہوئے کہا: ’اگر ہم بہت جلد پابندیوں میں نرمی کر لیں، اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ اب اس کی ویکسین دستیاب ہے اور احتیاط ترک کردیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سب انفیکشن کی لہر پیدا کر رہے ہیں۔‘
’اور پھر اس کو ویکسین کو موثر بنانے کے لیے اور محنت لگے گی جو مشکل تر ہوجائے گا۔‘
انگلینٖڈ میں 99 فیصد سماجی سرگرمیوں پر پابندی سمیت عوام کو علاقائی پابندیوں پر عمل درآمد کرنے کی تاکید کرتے ہوئے وزیر اعظم جانسن نے خبردار کیا: ’اب سب سے غلط بات جو سوچی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم پابندیوں پر عمل کرنا چھوڑ دیں اور یہ سوچ لیں کہ کووڈ کے خلاف جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس خوشخبری کے ردعمل میں اس وائرس کو پھر سے تباہی مچانے کا موقع فراہم کرنا ایک بہت ہی مہلک غلطی ہوگی اور یہ کہ ہم کرسمس کے موقع پر وائرس کی منتقلی کے ذریعے صورت حال کو قابو سے باہر کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نافذ شدہ پابندیوں پر سختی سے قائم رہنا ہے۔‘
پروفیسر وان تام نے ویکسین کے ان مخالفین کو پیغام بھیجا ہے جن میں سے بہت سے لوگ لاک ڈاؤن پابندی کے خلاف احتجاج میں بھی نمایاں تھے۔
انہوں نے کہا: ’ہر کوئی چاہتا ہے کہ سماجی دوری کا خاتمہ ہو، ہم اس سے تنگ آچکے ہیں۔ کوئی بھی لاک ڈاؤنز اور ان سے ہونے والے نقصان کو دیکھنا نہیں چاہتا لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ خواب جتنا جلدی سچ ثابت ہو سکے تو پھر جب آپ کو یہ ویکسین پیش کی جائے تو یہ آپ کو یہ لینا ہوگی۔ ویکسین نہ لینے سے یقینی طور پر طویل عرصے تک پابندیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘
ڈپٹی چیف میڈیکل آفیسر نے کہا کہ یہ امکان نہیں ہے کہ کووڈ 19 کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا اور یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ یہ فلو کی طرح ہی کا موسمی مسئلہ بن سکتا ہے اور یہ کہ برطانوی رضاکارانہ طور پر ہیںڈ سینٹائزر اور چہرے کے ماسک کا استعمال جاری رکھیں گے جو پچھلے نو مہینوں سے ان کی ثانوی فطرت بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا: ’کیا میں سوچ سکتا ہوں کہ وہ اہم لمحہ آجائے گا جب ہم بڑی پارٹی کر سکیں گے اور ہم اپنے ماسک اور ہیںڈ سینٹائزر پھینک دیں گے اور کہیں گے کہ بس ان سے جان چھوٹی، ہم نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے، جیسے جنگ کے خاتمے کے بعد ہوتا ہے؟ نہیں، میرا نہیں خیال ایسا ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس قسم کی عادات جو ہم نے سیکھی ہیں۔۔۔ شاید بہت سالوں تک برقرار رہیں گی۔ اور ایسا کرنا اچھا ہو گا۔‘
بظاہر کسی حد تک اس انتباہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہ یہ بحرانی حالات برسوں تک برقرار رہ سکتے ہیں وزیر اعظم جانسن نے کہا: ’شاید دوسری جانب ہم شاید معمول کے قریب تر زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔‘
لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر نے اپنی فرنٹ بینچ ٹیم کی خدمات پیش کیں تاکہ حکومت کو برطانیہ میں ویکسینیشن کے لیے اتفاق رائے کا مظاہرہ کرنے میں مدد ملے۔
سر کیئر نے کہا: ’یہ پیش رفت دوسری جنگ عظیم کے بعد رسد کی سب سے بڑی مشق میں سے ایک ہے۔ ہمیں برطانیہ میں بہترین حالات کی ضرورت ہے، جماعتوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے اپنی جماعت کی اس کوشش میں شامل ہونے پر خوشی ہے۔‘
© The Independent