وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی کی طالبہ اور ہلال احمر میں کام کرنے والی کائنات طارق کے مبینہ قتل میں ملوث ملزم خالد بن مجید کے آٹھ روزہ ریمانڈ کے دوران پولیس تفتیش مکمل ہوگئی، جس کے بعد مجسٹریٹ نے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔
پولیس ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ دوران تفتیش اہم انکشافات سامنے آئے اور ملزم خالد بن مجید نے کائنات اور اپنے تعلق کا اقرار کرلیا۔
پولیس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملزم نے بیان دیا کہ 'کائنات لاہور دارالامان میں رہائش پذیر تھی (پولیس نے دارالامان سے اس حوالے سے تصدیق بھی کر لی ہے)، جہاں سے انہوں نے آن لائن ملازمت کے لیے اپلائی کیا تھا، جس پر خالد نے انہیں اسلام آباد میں نوکری کی پیشکش کی اور پھر کائنات اسلام آباد آگئیں۔'
پولیس کے مطابق اس دوران ملزم خالد نے خاتون کو ورغلایا کر باہمی تعلق قائم کیا اور دو دوستوں کی موجودگی میں خفیہ نکاح کیا، جس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں اور نہ ہی خالد نے اس نکاح کو رجسٹر کروایا۔
دوران تفتیش یہ بھی سامنے آیا کہ خالد نے ہی کائنات کا یونیورسٹی میں داخلہ کروایا اور اس کی ہنڈا کار کائنات کے زیر استعمال تھی جبکہ ہاسٹل میں داخلہ اس نے بھائی بن کر کروایا۔
خالد نے پولیس کو بتایا کہ کائنات اس نکاح کو پبلک کرنے کا کہتی تھی جبکہ اس کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ملزم خالد نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے خفیہ نکاح صرف کائنات کی تسلی کے لیے کیا تھا لیکن اس کو اپنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، جس سے دل برداشتہ ہو کر کائنات نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔
پولیس حکام نے مزید بتایا کہ میڈیکل رپورٹ سے کائنات کا حاملہ ہونا ثابت نہیں ہوا تاہم موبائل فون کے ڈیٹا کے فرانزک کا انتظار ہے تاکہ ڈیلیٹ شدہ مواد بھی جانچ کر حتمی چالان مرتب کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کا کہنا ہے کہ 'یہ معاملہ خودکشی کا ہے لیکن خودکشی اگر کسی شخص کی وجہ سے کی جائے اور یہ ثابت ہو جائے تو اس شخص پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 کے تحت مقدمہ ہوتا ہے جس کی سزا سات سے دس سال قید ہے اور اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ملزم نے ورغلایا، جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی۔ اس کو قتل بالسبب بھی کہا جاتا ہے اور اس میں ضمانت بھی ہو جاتی ہے۔'
پولیس حکام کے مطابق ممکنہ طور پر ملزم خالد بن مجید، جو ہلال احمر پاکستان میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، ان کے خلاف 322 کا مقدمہ بنایا جائے گا۔
پولیس نے مزید بتایا کہ کائنات کے والد کو سارے معاملے سےآگاہ کیا گیا ہے، لیکن ان کا یہی کہنا ہے کہ گولیاں بھی خالد نے کائنات کو خود کھلائی ہوں گی اور وہی ان کی بیٹی کا قاتل ہے۔
کائنات کے اہل خانہ پولیس تفتیش سے مطمئن نہیں
کائنات طارق کے دبئی میں مقیم بھائی اسامہ طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بذریعہ فون اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ان کو بہن کے نکاح کا تو علم ہی نہیں تھا حالانکہ ان کی روزانہ اپنی بہن سے بات چیت ہوتی تھی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات نہیں مان سکتے کہ کائنات خودکشی کرسکتی ہے۔ 'اگر وہ کسی ڈپریشن کا شکار ہوتی تو ضرور بتاتی لیکن کائنات نے ایسا کچھ کبھی بھی شیئر نہیں کیا بلکہ وہ اسے بھاری رقم بھی بھیجتے رہے ہیں۔'
اسامہ کے مطابق ان کے والدین کی علیحدگی ہوچکی ہے لیکن اس بات کو بہت سال گزر چکے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ انہیں پولیس تحقیقات پر بھروسہ نہیں ہے کیونکہ ہلال احمر کے عہدیدار خالد بن مجید کے سیاسی شخصیات کے ساتھ تعلقات ہیں اور اس کی سفارشیں ہیں، اس لیے ان کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے کی جوڈیشل تحقیقات کر کے ملزم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
کیس کا پس منظر
گذشتہ ماہ 23 نومبر کو اسلام آباد میں کائنات طارق نامی 23 سالہ طالبہ کے مبینہ قتل کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس کے بعد 24 نومبر کو لڑکی کے والد کی جانب سے ایف آئی آر کا اندراج ہو، جس میں ہلال احمر کے سیکرٹری جنرل خالد بن مجید پر قتل کا الزام لگایا گیا۔
تاہم پولیس تفتیش میں سامنے آیا کہ کائنات نے گندم میں رکھنے والی گولیاں دفتر کے ڈرائیور کے ساتھ جا کر خریدیں اور واپس دفتر آ کر کھالیں جس کے بعد ان کی موت واقع ہو گئی، لیکن مبینہ قتل کے شبے میں پولیس نےخالد بن مجید کو حراست میں لے لیا تھا جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی زہریلی گولیوں کی تصدیق ہوگئی تھی۔
خاتون کا میڈیکل اور موبائل ڈیٹا فرانزک کے لیے لاہور بھجوا دیا گیا تاکہ کیس کی تفتیش کو مزیدآگے بڑھایا جا سکے۔ دوسری جانب پولیس نے کیس میں ملوث تمام کرداروں کے بیانات بھی ریکارڈ کر لیے ہیں۔