پاکستان میں حکومت میں شفافیت اور عوام کو درکار معلومات مہیا کرنے کے مقصد سے قائم پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنی کارکردگی سے متعلق پہلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ معلومات کے حصول سے متعلق سب سے زیادہ اپیلیں وزارت دفاع سے متعلق تھیں۔
34 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ نومبر 2018 سے نومبر 2019 تک کے دو سال کے عرصے پر مبنی ہے۔ سرکاری ادارے اور محکمے جب کسی پاکستانی کی جانب سے معلومات کے حصول کی درخواست اس ادارے کو دیتے ہیں اور ان کو جواب نہیں ملتا تو پھر وہ پاکستان انفارمیشن کمیشن سے اپیل کے ذریعے رجوع کرتے ہیں۔
اگرچہ ریاستی اداروں میں شفافیت کے فروغ کے لیے یہ ادارہ نومبر 2017 میں قائم کیا گیا تھا لیکن اس کے تین رکنی کمیشن کے لیے پہلے 19 ماہ میں کوئی دفتر مہیا نہیں کیا گیا۔ کمیشن نے اپنا کام زیرو پوائنٹ اسلام آباد کے قریب انفارمیشن اکیڈمی کی عمارت سے شروع کیا اور اس کے اراکین کو آٹھ ماہ بعد پہلے تنخواہ ملی۔ اس اہم کمیشن کی ویب سائٹ بھی ایک غیرسرکاری تنظیم نے بنا کر دی۔
دو سال کے عرصے میں کمیشن کو مختلف سرکاری محکموں کے خلاف 682 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 257 میں درخواست کنندہ کو مطلوبہ معلومات مہیا کر دی گئی تھیں۔ باقی ماندہ اپیلوں پر ہفتے میں تین دن سماعت ہوتی ہے اور کارروائی جاری ہے۔
رپورٹ میں شکایات کی نوعیت کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن یہ بتایا گیا کہ وزارت دفاع کے خلاف سب سے زیادہ یعنی 37 شکایات موصول ہوئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس سلسلے میں 36 شکایات کے ساتھ دوسرے اور کنٹونمٹ بورڈز 25 شکایات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس کے علاوہ وزارت خزانہ، وزارت انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ، کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، ایف آئی اے، ایف بی آر اور وزارت داخلہ شامل ہیں۔
کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر اعظم خان کا اس رپورٹ میں کہنا تھا کہ انہوں نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 کے تحت خفیہ بیانیے کے مقابلے میں شفافیت کے بیانیے کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’بعض وفاقی اداروں کی جانب سے شدید مزاحمت کے باوجود کمیشن اپنے احکامات پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔‘
شکایات کا مجموعی تجزیہ یہ ہے کہ شہریوں کی طرف سے مطالبہ کی گئیں معلومات سرکاری اداروں کی آڈٹ رپورٹوں سے متعلق ہیں، جس میں پارلیمان میں رکھے گئے قانون سازی کے بلز، حکام کے خلاف انکوائری کی اطلاعات کی نقول، ان کی تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ ساتھ ججوں کے اثاثوں اور افسران کی تفصیلات وغیرہ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے تفصیلی احکامات کے ذریعے کمیشن نے بعض اصول طے کیے ہیں جیسے کہ اگر کسی ادارے نے وفاقی حکومت کی طرف سے نقد یا کسی قسم کی کوئی معاونت حاصل کی ہے جیسے کہ ایس این جی پی ایل اور اسلام آباد کلب تو انہیں سرکاری ادارے سمجھا جائے گا۔.
پاکستان کی سینیٹ نے کمیشن کے حکم کی تعمیل کرنے کی بجائے کمیشن کو ایک خط بھیجا ہے کہ ’چیئرمین سینیٹ ایسا اعلان کرنے کا مجاز ہے جس میں وہ سینیٹ سیکرٹریٹ کے تمام ریکارڈ کو کلاسیفائیڈ قرار دے سکتے ہیں۔ سینیٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ معذور افراد کے لیے منظور شدہ اور خالی ملازمتوں کی کل تعداد بتائی جائے جو کہ کمیشن کے مطابق معلومات ایکٹ 2017 کے تحت عوامی معلومات کے زمرے میں آتی ہیں۔‘
ایک غیرسرکاری تنظیم 'ارادہ' نے گذشتہ دنوں وفاق اور صوبوں میں انفارمیشن کمیشن کا جائزہ رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن ازخود اطلاعات کی فراہمی کے اشاریے کے تحت 100 فیصد پوائنٹس کے ساتھ سر فہرست ہے جبکہ 89 فیصد نمبروں کے ساتھ پنجاب انفارمیشن کمیشن دوسرے نمبر پر اور وفاقی انفارمیشن کمیشن 63 فیصد پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ سندھ انفارمیشن کمیشن کے پوائنٹس اس لیے صفر رہے کیونکہ اس کی اب تک ویب سائٹ ہی نہیں بنی۔ بلوچستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون ابھی موجود نہیں، اس لیے یہ صوبہ اس رینکنگ میں شامل نہیں ہے۔