پانچ دن گزر جانے کے باوجود کریمہ محراب، جو کریمہ بلوچ کے نام سے جانی جاتی ہیں، کی موت کا معمہ حل نہیں ہوسکا ہے۔
بلوچستان میں طلبہ کی سرگرم تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او آزاد) کی سابق چیئر پرسن کریمہ بلوچ کی لاش 21 دسمبر کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں لیک شور نامی علاقے کے نزدیک ایک جزیرے کے پاس پانی میں ملی تھی۔
ٹورونٹو پولیس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’پولیس اس کی ایک غیر مجرمانہ موت (non-criminal death) کے طور پر تفتیش کر رہی ہے اور پولیس کو اس کیس میں کسی مشکوک سرگرمی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔‘
مگر پاکستان میں بلوچ تنظیموں سمیت مختلف سماجی تنظیمیں احتجاج کرکے ٹورونٹو پولیس کے دعوے کو رد کرتے ہوئے مطالبہ کر رہی ہیں کہ کریمہ بلوچ کی ہلاکت کا معمہ حل کیا جائے۔
بدھ کو کوئٹہ میں ایک بڑا احتجاج ہوا، جب کہ جمعرات کو بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت مختلف تنظیموں پر مشتمل بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک ریلی نکال کر تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
دوسری جانب کریمہ بلوچ کے شوہر حمل حیدر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’کریمہ بلوچ کی موت سے متعلق مزید تحقیقات کی جائیں۔ میری اہلیہ ایک باہمت خاتون تھیں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم کینیڈین حکام سے ان کی موت کے بارے میں جامع تفتیش کا مطالبہ کریں۔ حکام کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں ماضی میں کینیڈا منتقل ہونے کے بعد بھی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔‘
بیرون ملک مقیم بلوچ کارکنوں کی یہ پہلی ہلاکت نہیں۔ اس سے قبل دو واقعات میں ساجد حسین اورعارف بارکزئی ہلاک ہوئے لیکن ان کی موت کی بظاہر وجوہات اکثر لوگ ماننے کو تیار نہیں۔
ساجد حسین بلوچ
مارچ 2020 میں پیش آنے والے ایک واقع میں سویڈن کے شہر اپسالہ میں دو ماہ تک لاپتہ رہنے کے بعد صحافی ساجد حسین بلوچ کی بھی لاش ملی تھی۔ کریمہ بلوچ کی طرح ساجد حسین بلوچ کی لاش بھی پانی سے نکالی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان کے علاقے کیچ سے تعلق رکھنے والے ساجد حسین کراچی میں انگریزی اخبارات کے ساتھ صحافت کرچکے تھے اور وہ آن لائن اخبار بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر اِن چیف تھے۔
ساجد حسین آٹھ نوبل پرائز کے ساتھ دنیا کی رینکنگ میں ایک بہتری علمی ادارے کی شہرت رکھنے والی سویڈن کی اپسالہ یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہے تھے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ وہ جس دن اپنے ہاسٹل کے کمرے میں منتقل ہوئے، اسی دن لاپتہ ہو گئے اور بعد میں ان کہ لاش ملی۔
عارف بارکزئی
اسی یونیورسٹی میں پراسرار طور پر مرنے والے بلوچستان ہی کے ایک اور رہنما عارف بارکزئی کی موت کا معمہ بھی 13 سال گزرنے کے باوجود حل نہ ہوسکا۔
عارف بارکزئی بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے رکن تھے اور ان کی پراسرار موت ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک سٹوڈنٹ ہاسٹل میں ہوئی تھی۔ وہ 10 جنوری، 2008 کو اپنے ہاسٹل کی 11ویں منزل سے گر کر موت کا شکار ہوئے، مگر پولیس نے کہا کہ ان کی موت کے پیچھے کوئی مجرم نظر نہیں آ رہا اور یہ ایک اتفاق ہے۔