ذرائع نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر اور خاتون سماجی کارکن لجين الہذلول کے وکیل دونوں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت انہیں دی گئی 68 ماہ قید کی سزا کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں قائم خصوصی عدالت نے سماجی کارکن کو سزا کا فیصلہ سنایا ہے۔
پبلک پراسیکیوٹر سماجی کارکن کے لیے زیادہ سخت سزا چاہتے ہیں جب کہ ان کے وکیل کا مقصد ان کی سزا ختم کروانا ہے۔ الہذلول کو متعدد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تھا۔
عدالت نے ان کی پانچ سال اور آٹھ ماہ کی سزا میں سے دو سال اور 10 ماہ کی سزا معطل کر دی تھی۔ عدالت نے کھلی سماعت کے دوران فیصلہ سنایا ۔ اس موقعے پر الہذلول، ان کا خاندان، وکیل، مقامی صحافی اور انسانی حقوق کے سعودی کمیشن کے ارکان موجود تھے۔
عدالت نے دہشت گردی اور اس کے لیے سرمائے کی فراہمی کے خلاف فوجداری قانون کے آرٹیکل 43کے مطابق جرائم کرنے پر الہذلول کو سزا سنائی۔ ان جرائم میں مملکت کا نظام تبدیل کرنے کے لیے اکسانا، امن و امان کو خطرے میں ڈالنے کے لیے ملک میں غیرملکی ایجنڈے پر عمل کی کوشش کرنا اور ان افراد اور اداروں کے ساتھ، جو دہشت گردی کے جرائم کر چکے ہیں، تعاون کرنا شامل ہے۔
جج نے کہا کہ ملزمہ جرائم کرنے کا اعتراف کر چکی ہیں اور ان کے اعترافات کو کسی زبردستی یا جبرکے بغیر رضاکارانہ طور پر دستاویزی شکل دی گئی اور یہ کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ان پر تشدد کرکے اعتراف کروایا گیا ہو جیسا کہ انہوں نے مقدمے کی گذشتہ سماعتوں کے دوران دعویٰ کیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ سزا جزوی طور پر معطل کر دی گئی ہے تاکہ الہذلول کی بحالی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ عدالتی فیصلے میں اس امر کو نمایاں کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے آئندہ تین برس کے دوران کوئی جرم کیا تو اس صورت میں سزا کی معطلی منسوخ کر دی جائے گی۔
عدالتی فیصلے میں دہشت گردی اور اس کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کے خلاف قانون کے آرٹیکل میں دی گئی اضافی سزا بھی شامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملزمہ کی جانب سے جرائم میں استعمال ہونے والے وہ الیکٹرانک آلات اور میڈیا، جن کا قبضے میں حوالہ دیا گیا ہے، انہیں ضبط کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قانونی مشیر نائف السوبئی نے کہا ہے کہ مدعا علیہ کے خلاف دیا گیا فیصلہ ابتدائی نوعیت کا ہے، جس کے خلاف اس کے اعلان کی تاریخ کی بجائے عدالت سے فیصلہ حاصل کرنے کی تاریخ کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
مشیر کا مزید کہنا تھا کہ اپیل کی صورت میں مقدمہ کورٹ آف اپیل کو بھجوا دیا جائے گا جو تین ججوں پر مشتمل ہے۔ یہ جج فیصلہ مسترد کرنے یا اسے برقرار رکھنے سے پہلے مدعاعلیہ کے خلاف فیصلے، مقدمے کی فائل، پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد اور مدعاعلیہ کے اعتراف کا جائزہ لیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ مدعا علیہ کو بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق ہے۔
دوسری جانب عدالت نے الہذلول کی وہ درخواست مسترد کر دی جس انہوں نے الزام لگایا تھا کہ انہیں جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔عدالت نے پبلک پراسیکیوشن کی تحقیقات کے بعد ان کی درخواست مسترد کی۔پبلک پراسیکیوٹر کی تحقیقات میں جیل حکام اور قیدیوں سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔