اسلام آباد کے رہائشی محمد صالح نے چھ ماہ قبل اپنے بیٹے کے لیے نئی گاڑی خریدنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ کمپنی سے براہ راست خریداری کی صورت میں ڈیلیوری میں کم از کم ڈیڑھ ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
لہذا انہوں نے انتظار کے بجائے میں نے ڈیلر سے گاڑی خریدی اور دو لاکھ روپے اضافی رقم یعنی اون منی کے طور پر ادا کر کے اپنے بیٹے کو گاڑی جلد دلا دی۔
پاکستان میں ایسے ہزاروں افراد ہیں جو فوراً گاڑی حاصل کرنے کی خاطر نئی گاڑیوں کی خریداری ڈیلرز سے کرتے ہیں اور لاکھوں روپے اون منی یا پریمیئم کے طور پر دیتے ہیں۔
سال گذشتہ کے دوران ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی کے باعث آٹوموبیلز کی خرید و فروخت میں ’اون منی یا پریمیئم‘ کی وصولی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اون منی کے اضافے کی بازگشت 29 دسمبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی سنائی دی جب کئی وزرا نے پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں اور خصوصاً اون منی کا ذکر چھیڑا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسی اجلاس میں وفاقی وزارت صنعت و تجارت کو 2020 کے دوران گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی پیداوار میں کمی سے متعلق رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی۔
اسلام آباد میں کاروبار کرنے والے کار ڈیلر کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں گاڑیاں کم ہیں اور خریدار زیادہ اسی لیے اون منی کے رجحان اور شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
اون منی یا پریمیئم ہے کیا؟
گاڑیوں کے خریداروں کی اکثریت براہ راست آٹوموبیل مینوفیکچررز سے ہی خریداری کو ترجیح دیتی ہے جس کے لیے بکنگ اور خریدار کو گاڑی کی ڈیلیوری کے درمیان کم از ایک ماہ اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں وصول ہونے والے آرڈرز کے مطابق آئندہ مہینوں میں اپنے پیداواری اہداف کا تعین کرتی ہیں، تاہم ہر کمپنی اپنے ٹارگٹ سے 20 سے 30 فیصد زیادہ گاڑیاں تیار کرتی ہے اور یہ اضافی یونٹس ڈیلرز کو دیے جاتے ہیں۔
ڈیلرز گاڑیاں خرید کر اپنے شو رومز میں سجاتے ہیں جہاں سے خواہش مند فوری خریداری کر سکتے ہیں۔ ڈیلر سے گاڑی خریدنے کی صورت میں خریدار کو مینوفیکچرر سے براہ راست خریداری کی صورت میں پیش آنے والے انتظار کی کوفت سے نجات مل جاتی ہے اور ڈیلر اسی آسانی کے باعث خریدار سے اضافی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جسے اون منی یا پریمیئم کہا جا تا ہے۔
گذشتہ 40 سال سے آٹوبیلز منیوفیکچرنگ سے وابستہ عبدالمجید شیخ کہتے ہیں کہ اکثر ڈیلرز خریدار کو اون منی کی مناسب رسید بھی نہیں دیتے۔
’ایک کچی رسید دے دیتے ہیں جس پر سروس چارجز وغیرہ جیسی مدوں کا ذکر ہوتا ہے۔‘
اسلام آباد میں گاڑیوں کے ڈیلر محمد عامر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ مارکیٹ میں نئی گاڑیاں کم اور خریدار زیادہ ہیں اور ہر کوئی جلدی گاڑی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایک دوسرے کار ڈیلر کا کہنا تھا کہ ’میں نے جو یہ انویسٹمنٹ کی ہے تو وہ کاروبار اور منافع کے لیے ہی کی ہے۔ میں آپ کو سہولت دیتا ہوں اور اس کے لیے چارج کرتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت مارکیٹ میں ایک ہزار سی سی سے کم گاڑیوں کی اون منی کا ریٹ کم از کم اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے چل رہا ہے جبکہ بڑی گاڑی کی خریداری پر کم از کم دو لاکھ روپے پریمیئم کی مد میں ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔
گذشتہ سال کے دوران گاڑیوں کی پیداوار میں کمی کے باعث اون منی میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
عبدالمجید شیخ کہتے ہیں کہ کووڈ۔19 سے متعلق پابندیاں اٹھنے کے بعد گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا جبکہ پیداواری صلاحیت ابھی کم ہے جس سے مارکیٹ میں طلب رسد سے کئی گنا زیادہ ہوگئی جس کے نتیجے میں اون منی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔
اون منی کی قانونی شکل
وفاقی وزارت ٖصنعت و تجارت کے ایک سینئیر اہلکار کے مطابق وفاقی کابینہ نے اون منی کو قانونی شکل دینے کے لیے بعض فیصلے کیے ہیں جن میں پریمیئم کی ایک خاص شرح متعین کی گئی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ حکومت پہلی خریداری کے 90 دن کے اندر نئی گاڑیوں کی فروخت پر ٹیکس متعارف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے اون منی یا پریمئیم کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
کابینہ تجاویز کے مطابق ایک ہزار سی سی سے کم طاقت کی گاڑی پر 50 ہزار روپے جبکہ ہزار سی سی پر ایک لاکھ اور اسی طرح گاڑی کے انجن کی طاقت میں اضافے کے ساتھ ٹیکس میں بھی اضافہ ہو گا۔
سینئیر اہلکار کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس کے باعث گاڑیوں کی قیمتوں میں تھوڑا سا اضافہ تو ہو گا تاہم ڈیلرز خریدار سے اپنی من مانی اون منی کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ کے فیصلے کو قانونی شکل دینے کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی ضروری ہو گی اور دوسری صورت میں صدارتی آرڈیننس بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔
آٹوموبیلز مینوفیکچررز کا بھی دیرینہ مطالبہ تھا کہ نئی گاڑیوں کی خریدو فروخت میں اون منی یا پریمیئم کی حوصلہ شکنی کی خاطر حکومت مخصوص ٹیکس متعارف کرائے۔
گاڑیوں کی کم پیداوار
سال 2020 کے شروع میں کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں جس سے دوسرے شعبوں کی طرح پاکستان کی آٹومابیلز کی پیداوار بھی کم ہوئی۔
گذشتہ سال اپریل کے مہینے میں پاکستان میں قائم سات آٹوموبیلز مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے پلانٹس بند رہے اور پورا مہینہ گاڑیوں کی پیداوار صفر رہی جبکہ مئی میں بھی اکثر کارخانے بند رہے۔
جون میں لاک ڈاؤن کے ختم ہونے پر گاڑیاں بنانے والے کارخانے کھل تو گئے لیکن ایس او پیز پر عمل کرنے کے باعث پیداوار کم ہی رہی۔
قارئین کی آسانی کے لیے ان صفحات پر دو چارٹس پیش کیے گئے ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 2020 میں جولائی سے نومبر کے دوران گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت کا کیا رشتہ رہا جو 2019 کے دوران انہی مہینوں میں کس طرح مختلف تھا۔
ان اشکال سے واضح ہو جاتا ہے کہ 2019 میں خصوصاً چھوٹی گاڑیوں کی پیداوار فروخت سے زیادہ رہی جبکہ 2020 کے دوران پیداوار کم اور فروخت زیادہ رہی۔
عبدالمجید شیخ کہتے ہیں کہ آٹوموبیلز مینوفیکچررز نے اپنی پیداوار میں جان بوجھ کر کمی نہیں کی بلکہ یہ ملکی اور بین الاقوامی صورت حال کے باعث ہوا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر بھی پابندی عائد کی جو ملک میں طلب میں اضافے کا باعث بنی جبکہ آٹوموبیلز مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والا خام مال بھی مہنگا ہوا جس سے قیمتوں پر مزید اثر پڑا۔